یہوداہ

یہوداہ   ۔   ایمان کے واسطے جان فشانی

نئے عہد نامے کے یہ چھوٹے خطوط اکثر نظر انداز کئے جاتے ہیں، لیکن اِس اہم خط کی طرف بے توجیہانہ رویہ یہوداہ کے اِس خط کی بجائے ہماری اپنی ذات کے بارے میں بہت کچھ کہتا ہے۔ “اِس خط کے متعلق بے توجیہی اِس کے بے محل یا غیر موزوں ہونے سے بڑھ کر اِسے نظر انداز کرنے والی نسل(پشت) کے سطحی پن کے بارے میں زیادہ کچھ کہتی ہے۔” (گوتھری/Guthrie)

الف : وہ خطرہ جس نے یہوداہ کو یہ خط تحریر کرنے پر آمادہ کیا۔

  1. (1آیت) مصنف اور قارئین

    یہوؔداہ  کی طرف سے جو یسوع مسیح کا بندہ اور یعقوب کا بھائی ہے، اُن بلائے ہوؤں کے نام جو خُدا باپ میں عزیز اور یسوع مسیح کے لئے محفوظ ہیں۔

    1. یہوداہ: انگریزی زبان میں اِس کتاب کا نام Jude ہے۔مصنف کا نام حقیقت میں “یہوداہ” ہی ہے۔ لیکن اِس خیال سے کہ کہیں اِس مصنف اور تصنیف کو اُس بدنامِ زمانہ  یہوداہ اسکریوتی سے نہ منسوب کیا جائے جس نے یسوع کو دھوکہ دیا تھازیادہ تر انگریزی مترجمین نے مصنف کا نام Judeلکھا ہے۔  

      1. نئے عہد نامے میں یہوداہ نامی چھ لوگوں کا ذکر ملتا ہے، لیکن مُصدق شہادتیں اِس شخص کی شناخت یسوع کے سوتیلے بھائی کے طور پر کرتی ہیں جس کا ذکر متی 13باب 55آیت اور مرقس 6باب 3آیت میں ملتا ہے۔ 

      2. یہوداہ بھی یسوع کے دیگر سوتیلے بھائیوں (بشمول یعقوب کے)یسوع پر اُس کے مرُدوں میں سے جی اُٹھنے سے پہلے تک بطور مسیحا ایمان نہیں رکھتا تھا۔ (یوحنا 7باب5آیت اور اعمال 1باب14آیت)

    2. یسوع مسیح کا بندہ(غلام) : یہوؔداہ کا یسوع کے ساتھ خونی رشتہ تھا لیکن وہ اپنے آپ کو یسوع مسیح کا صرف ایک بندہ(غلام) ہی خیال کرتا تھا۔ یہوداہ کا اپنے آپ کو یسوع مسیح کے سوتیلے بھائی کی بجائے اِس طرح سے متعارف کروانے کا اَمر ہمیں یہوداہ کی حلیمی کے بارے میں بتاتا ہےاور مزید یہ بھی بتاتا ہے کہ یسوع کے ساتھ محض انسانی سطح پر تعلق غیر اہم ہےجبکہ اُس کے ساتھ رُوحانی تعلق ضروری ہے۔

      1. یسوع نے ایسے انسانی/جسمانی رشتوں کے غیر اہم ہونے کے بارے میں کلام کیا ہے  جیسے کہ مرقس 3باب31-35آیات اور لوقا 11باب27-28آیات

      2. اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہوداہ اِس بات کی بڑی قدر کرتا تھا کہ وہ یسوع کا سوتیلا بھائی تھا اور اُسکی پرورش بھی اُس گھر کے اندر ہوئی تھی جہاں پر یسوع پلا بڑھا تھا۔ لیکن اِس سے بہت زیادہ بڑھ کرقابلِ قدر اُس کے لئے یسوع کے ساتھ اُسکا نیا تعلق تھا۔ یہوداہ کے لئے یسوع کا وہ خون جو اُسکی نجات کے لئے صلیب پر بہا تھا اُس خون سے زیادہ اہم تھا جو یسوع کے خاندان کا فرد ہونے کے ناطے اُسکی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ یہوداہ بھی یقیناًپولس رسول کے ساتھ یہ کہے گا کہ “ہاں اگرچہ مسیح کو بھی جسم کی حیثیت سے جانا تھا مگر اب سے نہیں جانیں گے۔”(2کرنتھیوں 5باب16 آیت)۔

    3. اور یعقوب کا بھائی : یعقوب یروشلیم میں کلیسیا کا ایک معتبر قائد اور نئے عہد نامے کے اُس خط کا مصنف ہے جسے اُسکا نام دیا گیا ہے۔ یعقوب اور یہوداہ دونوں ہی یسوع کے سوتیلے بھائی تھے۔ 

    4. اُن بلائے ہوؤں کے نام :  یہوداہ نے یہ خط بالخصوص مسیحیوں کے نام لکھا، یہ کوئی بشارتی کتابچہ نہیں ہے ، یہ اُن چیزوں کے بارے میں بات کرتا ہے جن کے بارے میں ایمانداروں کا سننا انتہائی ضروری ہے لیکن وہ اکثر اُن کے بارے میں سننا نہیں چاہتے۔

      1. یہوداہ اپنے قارئین کی مسیحیوں کے طور پر نشاندہی تین مخصوص طریقوں سے کرتا ہے

        • وہ بلائے گئے ہیں۔ کوئی بھی شخص مسیحی اِسی لئے ہوتا ہے کیونکہ وہ خُدا کی طرف سے بلایا گیا ہے۔جب ہمیں خُدا کی طرف سے بلاہٹ ملتی ہے تو اہم ترین چیز یہ ہے کہ ہم اُس کا مثبت انداز سے جواب دیں، بالکل اُسی طرح جب ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے تو ہم جواب دیتے ہیں۔ 

        • وہ خُدا باپ میں عزیز ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ دُنیا سے علیحدہ کئے گئے تھے اور خُدا کے لئے مخصوص کئے گئے تھے۔ 

        • وہ مسیح میں محفوظ ہیں۔ یسوع مسیح ہماراسرپرست اور محافظ ہے۔ 

  2. (2آیت) یہوداہ پرتپاک انداز سے مخصوص سلام و آداب پیش کرتا ہے

    رحم اور اطمینان اور محبت تم کو زیادہ حاصل ہوتی رہے۔

    1. رحم، اطمینان اور محبت:  یہ بالکل ویسی سلام دُعا نہیں جیسی ہم اکثر پولس کے خطو ط میں دیکھتے ہیں(جو عام طور پر “تمہیں فضل اور اطمینان حاصل ہو” جیسے الفاظ سے شروع ہوتی ہے)۔ لیکن یہ درحقیقت  ویسی ہی سلام دُعا ہے۔ 

    2. تم کو زیادہ حاصل ہوتی رہے:  یہوداہ کے دل و دماغ میں یہ کافی نہیں تھا کہ مسیحیوں کی زندگیوں میں رحم  ، اطمینان اور محبت شامل ہو۔ وہ اُن کی زندگیوں میں اِن چیزوں کی محض شمولیت سے بڑھ کر اُن کے روز بروز زیادہ ہونے کا خواہاں ہے۔ 

  3. (3آیت) ایمان کے واسطے جان فشانی کا بلاوہ

    اے پیارو!جس وقت مَیں تم کو اُس نجات کی بابت لکھنے میں کمال کوشش کر رہا تھاجس میں ہم سب شریک ہیں تو مَیں نے تمہیں یہ نصیحت لکھنا ضرور جانا کہ تم اُس ایمان کے واسطے جان فشانی کروجو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔ 

    1. مَیں تم کو لکھنے میں کمال کوشش کر رہا تھا:  یہوداہ کی بنیادی خواہش یہ تھی کہ وہ ہمیں اُس نجات کے حوالے سے لکھےجس میں ہم سب شریک ہیں۔ لیکن پھر کچھ ہواکہ  یہوداہ نے ایک یکسر مختلف خط لکھنا ضروری سمجھا۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ خط ہے جو یہوداہ بنیادی طور پر نہیں لکھنا چاہتا تھا۔ 

      1. یہوداہ کا خط اساسی طور پر ایک وعظ ہے۔ اِس میں یہوداہ نے اُن خطرناک سرگرمیوں اور خطرناک عقائد و تعلیمات کے خلاف تعلیم دی ہے جو یسوع مسیح کی انجیل کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہ بہت ہی سنجیدہ قسم کےمسائل اور معاملات تھے اور یہوداہ نے اُن کے ساتھ بڑی سنجیدگی سے ہی نپٹنے کی کوشش کی ہے۔ 

      2. ہمیں اِس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ یہوداہ رُوح القدس کی تحریک اور پیغام کو محسوس کرنے کے حوالے سے بہت حساس تھا۔ وہ تحریر جو ایک مسیحی قائد کی طرف سے ایک مخصوص کلیسیا کے لئے محض ایک خط ہو سکتی تھی رُوح القدس کی تحریک کی بدولت اِن آخری ایام میں ایک انمول آلہ کار اور ایمانداروں کو خبردار کرنے والا ایک انتہائی اہم  پیغام  بن گیا ہے۔  

    2. اُس نجات کی بابت ۔۔۔جس میں ہم سب شریک ہیں:  ہماری نجات اِس طور سے عام نہیں کہ یہ سستی ہے یا پھریہ  دُنیا کے ہر ایک شخص کے پاس ہے۔ یہ اِس صورت میں عام ہے کہ ہم جو بچائے گئے ہیں وہ ہم سب کے لئے یکساں ہےاور ہم ایک بہت بڑے گروہ کے طور پر اُس ایک نجات میں شریک ہیں۔ خُدا نے امیر اور غریب کے لئے نجات پانے کا علیحدہ  علیحدہ طریقہ نہیں رکھا، نہ ہی راستباز کے لئے علیحدہ اور ناراست کے لئے علیحدہ طریقہ ہے۔ ہم سب ایک ہی طریقے سے خُدا کے پاس آتے ہیں۔ اگر یہ نجات سب بچائے جانے والوں کے لئے یکساں نہیں ، تو پھر یہ خُدا کی طرف سے نجات نہیں –  بلکہ یہ حقیقت میں نجات ہے ہی نہیں۔ 

      1. ایک عام مسیحی شاید اِس کونہ تو مکمل طور پر جان سکےاور نہ سمجھ سکےیا پھر  جسمانی لحاظ سے اِس سے مستفید نہ ہو سکے، لیکن مسیحی ہونا ایک خاص گروہ کا حصہ ہونا ہے۔ مسیحی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اُن کئی ملین مسیحیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ہم مضبوط مسیحیوں اور کمزور مسیحیوں، بہادر مسیحیوں اور بزدل مسیحیوں ، بوڑھے مسیحیوں اور جوان مسیحیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم ایک ایسی غیر مرئی (نظر نہ آنے والی ) زور آور فوج کا حصہ ہیں جو انسان کی کئی نسلوں پر محیط ہے۔ 

      2. “کئی دوسرے معاملات میں ایمانداروں کے اندر تضاد پایا جاتا ہے، لیکن پھر بھی نجات سب کے لئے ایسی یکساں چیز ہے جس سے آرمینین اور کیلون ازم کے حامی  یکساں طور پر مستفید ہوتے ہیں، یہ پریسبٹیرین کلیسیا کے پاس بھی ہے اور اُسقفی  طرز کی کلیسیا کے پاس بھی، اِس کی قدرو منزلت خانفین(انجمن ِ احباب) بھی کرتے ہیں اور بیپٹسٹ کلیسیا بھی۔ وہ جو مسیح میں ہیں وہ آپسی طور پر اُن لوگوں سے زیادہ قریب ہیں جنہیں وہ شخصی لحاظ سے جانتے ہیں، اور گہری بنیادی سچائیوں (عقائد ) میں اُن کا مضبوط اور شدید قسم کا اتحاداُس بڑی قوت سے بڑھ کر ہے جس کا اُن میں سے کئی لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے؛ اُسے بس ایک موقع دیں اور پھر دیکھیں اُس کی بدولت کیسے حیرت انگیز کام رونما ہوتے ہیں،” (سپرجن/Spurgeon)

      3. 1980میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ٪70چرچ جانے والے مسیحیوں کا یہ کہنا تھا کہ آپ چرچ جائے بغیر (کلیسیا سے تعلق رکھے بغیر) بھی اچھے مسیحی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات یہوداہ کےنجات کے اُس تصور سے ہم آہنگ نہیں جس میں ہم سب شریک ہیں۔ 

    3. تمہیں یہ نصیحت لکھنا ضرور جانا کہ تم اُس ایمان کے واسطے جان فشانی کرو:  یہ وہ اہم ترین ضرورت تھی جس نے یہوداہ کو وہ خط لکھنے سے باز رکھا جو اُس نے اپنے دل میں سوچا ہوا تھا۔ جس قدیم یونانی لفظ کا ترجمہ جان فشانی کیا گیا ہے وہ کسرتی کھیلوں کی دُنیا سے آیا ہے – بالخصوص کشُتیوں کے اکھاڑوں سے۔ یہ اُس لفظ کی مزید مضبوط شکل ہے جس کے معنی ہیں اذیت اُٹھانے کی حد تک جان توڑ کوشش کرنا۔ اِس لئے یہاں پر جان فشانی لفظ سخت اور مستعد رہتے ہوئے تندہی سے کئے گئے کام کے بارے میں بات کرتا ہے۔ 

      1. وہ فعل جس کا ترجمہ جان فشانی کرو کیا گیا ہے(قدیم یونانی گرائمر کی رو سے)مصدر حال میں ہے، اور یہ ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ مسیحیوں کی جان فشانی اور کوشش جاری ہے۔ 

      2. ہم ایمان کے واسطے جان فشانی کرتے ہیں کیونکہ یہ بہت قیمتی ہے۔ اگر آپ کسی آرٹ گیلری میں داخل ہوتے ہیں اور وہاں پر کوئی چوکیدار یا کسی قسم کا حفاظتی انتظام نہیں ہے تو پھر آپ یقینی طور پر یہ نتیجہ نکالیں گے کہ اُس آرٹ گیلری میں کوئی بھی قیمتی چیز موجود نہیں ہے۔ قیمتی چیزوں کی حفاظت کی جاتی ہے، بے وقعت چیزوں کی کوئی حفاظت نہیں کرتا۔ 

    4. تمہیں یہ نصیحت لکھنا ضرور جانا کہ تم اُس ایمان کے واسطے جان فشانی کرو: اگر ہم لفظ تم پر زور دیں تو ہم کو یہ معلوم ہوگا کہ یہوداہ ہر ایک مسیحی سے یہی چاہتا تھا کہ وہ ایمان کے واسطے جان فشانی کرے۔ ایسے بہت سارے طریقے ہیں جن کی بنیاد پر ہر ایک مسیحی اپنے ایمان کے واسطے جان فشانی کر سکتا ہے۔

      1. ہم مثبت انداز سے ایمان کے واسطے جان فشانی اُس وقت کرتے ہیں جب ہم مسیحی ایمان اور خُداوند یسوع کی ذات کی غیر متزلزل گواہی پیش کرتے ہیں، مختلف طرح کے بشارتی کتابچے بانٹتے ہیں، خادمین یعنی مسیح کےوفادار ایلچیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے ہیں یا پھر جب ہم اُن وفادار پاسبانوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں جو اپنے منبر کے وسیلے سے خُدا کے کلام کو جلال دیتے ہیں۔ یہ بہت سارے طریقوں میں سے چند ایک ہیں جن کے وسیلے ہم مثبت انداز سے اپنے مسیحی ایمان کے واسطے جان فشانی کر سکتے ہیں۔ 

      2. ہم منفی انداز سے اپنے ایمان کے واسطے جان فشانی اُس وقت کرتے ہیں جب ہم جھوٹے اُستادوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ 

      3. ہم عملی لحاظ سے اپنے ایمان کے واسطے جان فشانی اُس وقت کرتے ہیں جب ہم اپنی مسیحی زندگی مسیحی ایمان پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کئے بغیر گزارتے ہیں اور خُداوند کے نام کو سارا جلال دیتے ہیں جس نے ہماری زندگیوں کو تبدیل کیا۔ 

      4. بیشک ایماندار مشنری اور مبشرین ایمان کے واسطے سخت جان فشانی کرتے ہیں۔ لیکن سنڈے سکول ٹیچر اور کسی گھر میں بائبلی مطالعہ کا لیڈر بھی جو کلامِ مقُدس کے ساتھ وفادار ہے ایسا ہی کر رہا ہے۔ ایسے لوگ بھی ایمان کے واسطے اُسی قدر جان فشانی کر رہے ہوتے ہیں جس قدر اگلی صفوں میں کام کرنے والا مشنری، اور ہم میں سے ہر ایک کو جہاں جہاں بھی خُدا نے رکھا ہے وہاں وہاں انجیل کی خدمت کے لئے جان فشانی کرنی چاہیے۔ 

    5. اُس ایمان کے واسطے جان فشانی کرو جو مقُدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا : یہاں پریہوداہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم جان فشانی کر کس چیز کے لئے رہے ہیں۔ دُنیا میں ہم بہت سارے معاملات میں سنجیدہ اور مستعد جدوجہد دیکھتے ہیں لیکن وہ اکثر درست چیزوں کے لئے نہیں ہوتی ۔ وہ ایمان جو مقُدسوں کو ایک ہی با ر سونپا گیا تھا یقینی طور پر اِس بات کا مستحق ہے کہ اُس کے لئے جان فشانی کی جائے۔ 

      1. “ایمان”سے مراد خُدا کی ذات پر ہمارا ذاتی یقین یا ایمان نہیں ہے۔ “وہ ایمان” سے مراد ہے انجیل میں بیان کردہ وہ سچائیاں ہیں جن پر تمام سچے مسیحی ایمان رکھتے ہیں۔ اُس ایمان کے بارے میں نئے عہد نامے میں جابجا ذکر کیا گیا ہے۔ (اعمال 6باب7آیت، 13باب 8آیت، 14باب 22آیت، 16باب5آیت، 24باب24آیت؛ رومیوں 1باب 5آیت اور 16باب26آیت؛ کلسیوں 2باب7آیت اور 1تیمتھیس1باب2 آیت اُن میں سے چند ایک مثالیں ہیں۔) ہمیں سچائی کے واسطے سخت جان فشانی کرنی چاہیے۔ ایمان سچائیوں کا وہ مجموعہ ہے جس نے کلیسیا کی تاریخ میں بہت پہلے ہی حتمی شکل اختیار کر لی تھی(بالموازنہ: اعمال 2باب42آیت؛ رومیوں 6باب17آیت؛ گلتیوں 1باب23آیت)۔” (بلوم/Blum)

      2. ایک ہی بارکے معنی ہیں کہ ایمان ایک ہی بار سونپا گیاتھا اور دوبارہ سونپے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بے شک ہم اِس سچائی کو بار بار بانٹتے ہیں۔ لیکن یہ خُدا کی طرف سے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے سے اِس دُنیا کو ایک ہی بار دیا گیا تھا۔ (افسیوں 2   باب20 آیت)۔ خُدا آج بھی کلام کر سکتا ہے اور کرتا ہے، لیکن جس انداز اور اختیار سے اُس نے پہلے نبیوں اور رسولوں کے وسیلے کلام کیا جو کتاب مقُدس کی صورت میں ہمارے پاس ہے ویسے وہ آج کلام نہیں کرتا۔ “کوئی دوسری انجیل نہیں ہے، کوئی ایک بھی اور نہیں ہے۔ اِس کے اندر کی تعلیمات و مضامین کو مزید بہتر اور گہرے طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے، اِس کے مشکل حصوں اور مضمرات کی سوجھ بوجھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، اِس کے نبوتیں پوری ہونگی، لیکن اِس انجیل کا نہ تو کوئی نیا یا اضافی حصہ آئے گا، نہ اِس کی جگہ کوئی اور کتاب یا تعلیم لے گی اور نہ ہی یہ برطرف کی جائے گی۔” (ارڈمن/Erdman)

      3. (سب مقُدسوں) کے معنی ہیں کہ یہ ایمان ہر کسی کے لئے ہے۔ ہمارے پاس یہ انتخاب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے کہ ہم خود سے اپنے ایمان کو تشکیل دیں اور اِس کے باوجود خُدا کے سچے پرستار کہلائیں۔ یہ ایمان سب کے لئے ہے، لیکن آج کل کے دور میں اُس ایمان پر یقین رکھنا بہت زیادہ مقبول نہیں جو مقُدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔ اِس کے برعکس لوگ اُس طرح کا ایمان چاہتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی میں مختلف تجربات کی بنیاد پر خود ترتیب دیتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اُس ایمان کو مانتے ہیں جو”اُنکے دل کے خیالات” ہوتے ہیں بجائے اُس ایمان کے جو مقُدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔ 

      4. روبرٹ بیلا اور اُس کے ساتھیوں نے اپنی کتاب Habits of the Heartمیں شیلا لارسن نامی ایک نوجوان نرس کے انٹرویو کے حوالے سے لکھا جسے اُنہوں نے زیادہ تر امریکیوں کے مذہب کے حوالے سے تجربے اور نظریات کی نمائندگی کرنے والی شخصیت کے طور پر بیان کیا۔ اُس کے اپنے ایمان کے حوالے سے اور اُس ایمان کے اُسکی زندگی میں کام کرنے کے حوالے سے اُس خاتون نے کہا:”مَیں خُدا پر ایمان رکھتی ہوں، مَیں مذہبی طور پر متعصب اور کٹر نہیں ہوں۔ مجھے یاد نہیں کہ پچھلی دفعہ مَیں کب چرچ گئی تھی۔ میرے ذاتی ایمان نے ایک لمبے عرصے سے مجھے بحال اور کامیاب رکھا ہے۔ یہ ‘شیلا ازم ‘ہے یعنی میری اپنی چھوٹی سی آواز۔ ” ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت ہی انفرادی ایمان آج کل کے دور میں بہت زیادہ مقبول ہے، لیکن یہ تصور کہ ہم خود اپنے ایمان کی تشکیل دے سکتے ہیں یا ہمیں ایسا کرنا چاہیے سراسر غلط بات ہے۔ مسیحیت کی بنیاد صرف ایک ایمان پر ہے، وہ ایمان جو مقُدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔

  4. (4آیت) ہمیں ایمان کے واسطے جان فشانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسیحیوں کے درمیان خطرناک لوگ موجو د ہیں۔

    کیونکہ بعض ایسے شخص چپکے سے ہم میں آملے ہیں جن کی اِس سزا کا ذکر قدیم زمانہ میں پیشتر سے لکھا گیا تھا۔ یہ بے دین ہیں اور ہمارے خُدا کے فضل کو شہوت پرستی سے بدل ڈالتے ہیں اور ہمارے واحد مالک اور خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتے ہیں۔ 

    1. بعض شخص چپکے سے ہم میں آملے ہیں: کسی حد تک یہی بات اُنہیں خطرناک بناتی ہے ۔ وہ چپکے سے آملے ہیں۔ اُن کے بارے میں پہلے کسی نے اِس بات پر غور نہیں کیا کہ وہ خطرناک تھے۔ اُن پر کوئی ایسا لیبل نہیں لگا ہوا تھا جس پر لکھا ہو کہ “خطرہ” یا “جھوٹا اُستاد”۔ یہ بعض اشخاص یقیناً اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ بائبل کو ماننے والے ایماندار ہونے کے دعویدار کے طور پر پیش کرتےتھے۔ 

      1. چپکے سے آملے، کے معنی ہیں کہ “وہ چپکے سے داخلی دروازے کی بجائے کہیں اور سے اندر کھسک آئے ہیں۔”(روبرٹسن / Robertson)۔ “ابلیس اِس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کلیسیا کے اندر ایک شیطانی رُوح کلیسیا کو اُن ہزاروں شیطانی رُوحوں سے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے جو کلیسیا کی حدود سے باہر ہیں۔” (سپرجن/Spurgeon)

    2. جن کی سزا کا ذکر قدیم زمانہ میں پیشتر سے لکھا گیا تھا: اِن خاص لوگوں کی ایک منزل ہے –  و ہ منزل جو ہر ایک جھوٹے اُستاد یا لیڈر کی ہے۔ اُن پر نشان ہو چکا ہے اور وہ سزا اُن کا مقدر ہےاور یہی بات یہ کہنے کے لئے کافی ہے کہ وہ ناراست اور بے دین  لوگ ہیں۔ وہ اِسی صورت میں بے دین ہیں کہ اُن کا خُدا سے تعلق نہیں ، اُن کی ظاہری صورت چاہے جیسی بھی کیوں نہ ہووہ خُدا کی ذات کی تحقیر کرتے ہیں۔ 

      1. اُن کے چپکے سے کلیسیا میں آملنے کی وجہ سے لوگوں نے شاید اُن پر توجہ نہ دی تھی لیکن وہ خُدا کی نظرسے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ خُداونداِن لوگوں کی بدولت جو اپنی تعلیم اور زندگی سے دوسروں کو گمراہ کر رہے ہیں  آسمان پررنجیدہ ہوتے ہوئے اپنے ہاتھ بھینچ رہا ہے ۔ وہ کچھ ایمانداروں کی نظروں سے چھپے ہونگے لیکن جہاں تک خُدا کی ذات کا تعلق ہے اُن کی سزا کا ذکر قدیم زمانہ میں پیشتر سے لکھا گیا تھا۔ اُنکی عدالت اور ہلاکت یقینی ہے۔ سچائی کی جیت ہوگی، اور ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سچائی کی طرفداری کریں۔ 

    3. وہ ہمارے خُدا کے فضل کو شہوت پرستی سے بدل ڈالتے ہیں : اِن لوگوں نے کسی حد تک خُدا کے فضل کو حاصل کیا تھا، لیکن جب اُنہوں نے اُسے حاصل کر لیا تو پھر اُنہوں نے اُسے اپنی شہوت پرستی کا بہانہ بنا لیا۔ 

      1. لفظ شہوت پرستی سے مرادوہ گناہ ہے جو کسی طرح کی شرمندگی و ندامت، کسی طرح کی ضمیر کی خلش یا سائستگی و معقولیت کے بغیر کیا گیا ہو۔ عام طور پر یہ لفظ جنسی ہوس جیسے کہ بدکاری جیسے گناہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن اِس کو ایسی بے حیا اور غیر بائبلی باتوں کی تعلیم کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں سچائی کو جھٹلایا جاتا ہے اور بغیر کسی شرم و حیا کے جھوٹ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جس وقت یہوداہ یہاں پر یہ لفظ استعمال کر رہا ہے تو اُس کے ذہن میں غالباً یہ دونوں باتیں تھیں، کیونکہ جب ہم اِس خط کو آگے پڑھتے ہیں تو ہم اِن خاص لوگوں کے اندردونوں یعنی اخلاقی اور عقائدی مسائل کودیکھتے ہیں۔ 

      2. یہوادہ کے الفاظ ہمیں دکھاتے ہیں کہ بے پروائی سے فضل کی تعلیم دینے میں بھی خطرہ ہے۔ کئی ایک ایسے لوگ ہیں جو خُدا کے فضل کی سچائی کو لیکر اُس فضل کو شہوت پرستی سے بدل ڈالتے ہیں۔ لیکن اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ خُدا کے فضل کے پیغام کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ یہ بات ہمیں سادہ طور پر یہی دکھاتی ہے کہ انسان کا دل کس قدر گمراہ اور گناہ آلود ہے۔ 

    4. اور واحد مالک اور خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتے ہیں:یہ مخصوص لوگ خُداوند یسوع مسیح کا انکار کرتے ہیں۔ وہ ایسا یسوع مسیح کے’ وہ ذات’ ہونے کا انکار  کرتے ہیں جس کا وہ دعویدار ہے اور اِس طرح سے وہ خُدا کی اصل ذات اور وجود کے تصور کا بھی انکار کرتے ہیں۔ 

      1. یہاں پر ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ کس مخصوص انداز سے خُداوند یسوع کا انکار کرتے ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ناراست انداز سے بسر کردہ زندگی کے ذریعے سے اُسکا انکار کرتے ہوں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بدعتی تعلیمات کی بدولت اُس کا انکار کرتے ہوں۔ غالباًیہ دونوں باتیں ہی سچی ہیں۔ 

ب: تین مثالیں جو ہمیں ایسے لوگوں (اشخاص) کی خُدا کی طرف سے عدالت کاحتمی یقین دلاتی ہیں۔ 

  1. (5آیت) اسرائیل کے لوگوں کی مثال.

    پس اگرچہ تم سب باتیں ایک بار جان چکے ہو تو بھی یہ بات تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ  خُداوند نے ایک اُمت کو ملکِ مصر میں سے چھڑانے کے بعد اُنہیں ہلاک کیا جو ایمان نہ لائے۔ 

    1. اگرچہ تم سب باتیں ایک بار جان چکے ہو تو بھی یہ بات تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں: یہوداہ جانتا تھا کہ وہ اُنہیں کوئی نئی بات نہیں بتا رہا تھا۔ اُنہیں پہلے ہی اِس مثال کے ساتھ تعلیم دی جا چکی تھی لیکن ضرورت تھی کہ وہ اِس کو دوبارہ سنیں اور اپنے موجودہ حالات پر اُن کا اطلاق کریں۔ 

      1. یقینی طور پر ہر ایک مسیحی پرانے عہد نامے کے اِن اشاروں کو پڑھنے کے بعد کہے گا کہ “ہاں یہوداہ، مَیں بالکل واضح طور پر جانتا/جانتی ہوں کہ تم کس بارے میں بات کر رہے ہو۔” اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ یہوداہ کس بارے میں بات کر رہا ہے تو اِس سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہمیں بائبل کو سمجھنے کے حوالے سے اپنی  سوجھ بوجھ کو گہرا کرنے کی ضرورت ہے۔ 

      2. “ہمیں ہر روز  بنیادی حقائق ، بنیادی عقائد ، کلام کی مرکزی سچائیوں کی یاددہانی پر زور دینا چاہیے۔ ہمیں اُن کے تعلق سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ‘ہر کوئی اُنہیں جانتا ہے’، اگر ہمارا یہ رویہ ہوگا تو پھر ہر کوئی اُنہیں بھول جائے گا۔” (سپرجن/Spurgeon)

      3. “خُداکے کلام کا استعمال محض یہ نہیں کہ  اُس سے ہم وہ باتیں سیکھیں جو ہم اُس کے بغیر نہیں سیکھ سکتے، بلکہ یہ اِس لئے بھی ہے کہ ہمیں اُن چیزوں /باتوں پر سنجیدگی سے غور کر نے کی تحریک دے جنہیں ہم پہلے سے جانتے ہیں، اور ہم سرد مہری کے علم کی بدولت کاہل نہ بنتے جائیں۔”(کیلون/Calvin)

    2. خُدانے ایک اُمت کو ملکِ مصر سے چھڑایا : یہوداہ ہمیں اُس واقعے کی یاددلاتا ہے جس کا ذکر ہمیں گنتی 14 باب میں ملتا ہے۔ خُدا نے اسرائیلی لوگوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کروایا ، وہ مصر میں سے نکلے  اور کسی بھی غیر مقصود تاخیر کے بغیر قادس برنیع کے مقام پر پہنچےجو ایک طرح سے وعدے کی سر زمین کی چوکھٹ تھا۔ لیکن قادس برنیع کے مقام پر لوگوں نے خُدا کی ذات پر توکل نہ کرتے ہوئے وعدے کی سرزمین میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ اِس لئے جتنے بھی جوان اور بوڑھے لوگ مصر سے نکلے تھے اُن میں سے کوئی بھی وعدے کی سرزمین میں داخل نہ ہوا(سوائے کالب اور یشوع کے]۔ 

      1. اِس ساری صورتحال میں جو کچھ خُدا نے اسرائیلی لوگوں کے لئے کیا اور جس طرح سے اُنہوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا اُس کے بارے میں مَیں اکثر سوچتا ہوں۔ اُنہوں نے بحر قلزم میں سے خُدا کی طرف سے معجزانہ رہائی کا تجربہ کیا۔ اُنہوں نے کوہِ سینا پر خُدا کی آواز کو سنا۔ اُنہوں نے بیابان میں مَن کی فراہمی کی صورت میں خُدا کی طرف سے روزمرّہ  کی دیکھ بھال کا تجربہ کیا۔ اِس کے باوجود وہ بے ایمانی کا شکار ہو گئےاور کبھی بھی برکت اور آرام کے اُس مقام پر نہ پہنچے جو خُدا نے اُن کے لئے مقرر کیا تھا۔ 

    3. مصر میں سے چھڑانے کے بعد اُنہیں ہلاک کیا جو ایمان نہ لائے : وہ جنہوں نےقادس برنیع کے مقام پر خُدا کے وعدے اور کلام پر شک کیا اُنہوں نے اِس بات کی وعدے کی سرزمین میں داخل نہ ہونے سے بھی بھاری قیمت ادا کی۔ اُنہوں نے خُدا کی عدالت کا سامنا کیا۔ زبور 95 بیان کرتا ہے کہ اُن کے اِس بے ایمانی کے رویے کی وجہ سے خُدا نے کس طرح کا ردِ عمل ظاہر کیا۔ چالیس برس تک مَیں اِس نسل سے بیزار رہااور مَیں نے کہا کہ” یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل آوارہ ہیں اور اُنہوں نے میری راہوں کو نہیں پہچانا۔ چنانچہ مَیں نے اپنے غضب میں قسم کھائی کہ یہ لوگ میرے آرام میں داخل نہ ہونگے۔” (95زبو ر 10-11آیات)

      1. یہوداہ کے خط کے اندر پایا جانے والا انتباہ بہت واضح ہے۔ بنی اسرائیل نے اپنے سفر کا آغاز بہت اچھے طریقے سے کیا۔ اُنہیں راستے میں خُدا کی بہت ساری برکات کا تجربہ رہا۔ لیکن وہ آخر تک قائم نہ رہ سکے کیونکہ اُنہوں نے خُدا کے وعدے اور اُس کی حفاظت کرنے کی قدرت کا یقین نہ کیا۔ 

      2. اِس مثال سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ جو خُدا کے کاموں میں مسائل پیدا کرتے ہیں ، چاہے اُنہوں نےخُدا کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز اچھے طریقے سے بھی کیوں نہ کیا ہو، اُن کی عدالت خُدا ضرور کرے گا۔ یہوداہ کہتا ہے کہ “اُن لوگوں نے اپنی خدمت کا آغاز اچھے طریقے سے کیا ہوگا ، بنی اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا تھا، لیکن خُدا نے بعد میں اُنہیں جو ایمان نہ لائے ہلاک کر دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں آخر تک یسوع کی پیروی کرنے کی ضرورت ہےاور ہمیں اُن جیسا نہیں بننا جو ایمان نہ لائے تھے۔ مسیحیت کا حتمی امتحان برداشت ہے۔ کئی لوگ دوڑ کا آغاز تو بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں لیکن اُسے کبھی بھی ختم نہیں کرتے۔ 

  2. (6آیت) اُن فرشتوں کی مثال جنہوں نے گناہ کیا۔

    اور جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا اُن کو اُس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روزِ عظیم کی عدالت تک رکھا ہے۔ 

    1. جن فرشتو ں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا: یہوداہ کا خط کچھ مبہم اور متنازعہ نکات کے بارے میں بات کرنےکے حوالے سے مشہور ہےاور اُن میں سے ایک کا ذکر یہاں پر کیا گیا ہے۔ یہاں پر یہوداہ اُن فرشتوں کے بارے میں بات کرتا ہے جنہوں نے گناہ کیا اور اب وہ قید کی حالت میں مستقبل میں آنے والے روزِ عدالت کے منتظر ہیں۔ 

      1. “یہ کہنا بے جا  نہ ہوگا کہ نیا عہد نامہ کسی بھی اور مقام پر اتنے مختصر سے حصے میں اِس طرح کی حیرت انگیز باتیں  یا پُرتجسس سوالات پیش نہیں کرتا۔” (سالمنڈ/Salmond، Pulpit Commentary)

    2. جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا : اِن فرشتوں کی شناخت کے حوالے سے کسی حد تک کچھ چیزیں متنازعہ ہیں۔ بائبل میں صرف دو ہی ایسے مقامات ہیں جن کی روشنی میں ہم اُن فرشتوں کے بارے میں کچھ جان پاتے ہیں جنہوں نے خُدا کے حضور گناہ کیا۔ پہلے تو وہ فرشتے جنہوں نے ابتدائی طور پر خُدا کے خلاف بغاوت کی (یسعیاہ 14 باب12-14آیات؛ مکاشفہ 12باب4آیت)۔ اور دوسرے نمبر پر پیدایش 6 باب 1-2 آیات میں خُدا کے بیٹوں کے گناہ کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ 

      1. پیدایش 6باب1-2 آیات بذات خود بہت سارے علماء کے نزدیک متنازعہ ہیں۔ یہ بیان کرتی ہیں کہ :  جب رویِ زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور اُنکے بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ تو خُدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو اُنہوں نے چنا اُن سے بیاہ کر لیا۔ اِس بارے میں کافی زیادہ بحث پائی جاتی ہے کہ آیا یہ خُدا کے بیٹے کہلانے والے فرشتگان ہیں یا پھر انسانوں میں سے وہ آدمی جو خُدا کی پیروی کرتے تھے۔ یہوداہ ہمیں اِس سوال کا جواب جاننے میں مدد کرتا ہے۔ 

    3. اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا: اِس جرم کا تعلق کسی نہ کسی حد تک جنسی گناہ کیساتھ تھا، جیسے کہ بغاوت کرنے والے فرشتگان (خُدا کے بیٹوں پیدایش 6 باب 2 آیت) اور انسانوں (آدم کی بیٹیوں ) کے درمیان جنسی ملاپ۔ ہم جانتے ہیں کہ اِس گناہ کی نوعیت کسی نہ کسی حد تک جنسی تھی کیونکہ یہوداہ آیت 7 میں ہمیں بتاتا ہے کہ : “اِسی طرح سدوم اور عمورہ اور اُن کے آس پاس کے شہر جو اِن کی طرح حرامکاری میں پڑ گئے اور غیر جسم کی طرف راغب ہوئے۔” یہاں پر دو الفاظ یعنی “اسی طرح” آیت 6 میں بیان کردہ فرشتگان کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، اور یہ الفاظ کہ “غیر جسم کی طرف راغب ہوئے” غیر فطری جنسی ملاپ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ 

      1. ہم پیدایش 6 باب سے اِس غیر فطری جنسی ملاپ کے بارے میں کچھ نہ کچھ جان پاتے ہیں، کیونکہ وہاں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اِس غیر فطری جنسی ملاپ کی بدولت غیر فطری اولاد پیدا ہوئی۔ اِس غیر فطری ملاپ نے انسان کے جینیاتی پول میں بگاڑ پیدا کر دیا۔ پس خُدا نے نوح کو اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب پایا۔ یہ غیر فطری جنسی ملاپ خُدا کی طرف سے اِس زمین کی انتہائی سخت عدالت کا سبب بنا –  یعنی اُس عالمگیر طوفان کا جس نے زمین پر کے تمام انسانوں کا سوائے آٹھ جانوں کے صفایا کر دیا۔ 

      2. ہم اِس واقعے میں یہوداہ 6 کی روشنی میں تھوڑے سے علم کا اضافہ کر سکتے ہیں۔ اِس غیر فطری ملاپ  کی وجہ سے خُدا نے ایک خاص طریقے سے اُن فرشتگان کو قیدمیں ڈال دیا جو اِس گناہ میں شریک تھے۔ اُنہیں خُدا نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روزِ عظیم کی عدالت تک رکھا ہے۔ 

      3. اِس غیر فطری جنسی ملاپ کی خاص تفصیلات کے بارے میں کوئی بات کرنا غیر ضروری اور بے فائدہ قیاس آرائی ہوگی۔ ہم نہیں جانتے کہ اِن گرے ہوئے فرشتوں نے انسان کی بیٹیوں کے ساتھ کیسے جنسی تعلق قائم کیا۔ غالباًاِس میں بدرُوح گرفتگی نے کافی حد تک مدد کی ہوگی اور گرے ہوئے فرشتوں نے رُوحوں کی صورت میں اُس دور کے کچھ گُنہگار لوگوں میں سما کر اُنہیں استعمال کیا ہو۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ فرشتگان عارضی طور پر انسانی روپ میں بھی آ سکتے ہیں لیکن ہم اِس حوالے سے اِس سے بڑھ کر کچھ اور نہیں جانتے۔ 

    4. اُن کو اُس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روزِ عظیم کی عدالت کے لئے رکھا ہے : خُدا نے اُن بدکار فرشتوں کی عدالت کرتے ہوئے اُنہیں دائمی قید میں ڈال دیا ۔ ظاہری طور پر کچھ گرائے ہوئے فرشتگان قید میں ہیں اور کچھ انسانوں کے درمیان بدرُوحوں کے طور پر آزادی کیساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں۔

      1. اپنے مقام کو قائم نہ رکھنے کی وجہ سے اب وہ دائمی قید میں مبتلا ہیں۔ اُن کی آزادی کے لئے گناہ آلود جد و جہد نے اُنہیں دائمی قید میں ڈال دیا۔ اِسی طرح سے وہ تمام جو ہر اُس کام کو کرنے کے لئے آزادی چاہتے ہیں جو اُن کا دل چاہتا ہے اِن فرشتگان کی طرح ہیں –  دائمی قید میں مبتلا۔ حقیقی آزادی تابعداری سے آتی ہے۔ 

      2. اگر فرشتے قید کی وہ زنجیریں نہیں توڑ سکتے جن میں وہ گناہ کی بدولت قید ہوئے ہیں تو ہمارا یہ سوچنا قطعی طور پر بیوقوفی ہے کہ ہم ایسا کر پائیں گے۔ ہم اُس قید سے اپنے آپ کو کبھی بھی آزاد نہیں کروا سکیں گے، لیکن ہم یسوع مسیح کے وسیلےمخلصی حاصل کر سکتے ہیں۔ 

      3. اِس سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ یہ فرشتے جو اِس غیر فطری جنسی گناہ میں ملوث تھے ابھی اِس قسم کی گناہ آلود سرگرمی میں مبتلا نہیں ہیں۔ نوح کے دور میں اپنی اُس سخت عدالت کی بدولت خُدا نے اُس غیر فطری جنسی گناہ کا خاتمہ کر دیا۔ 

      4. اِس مثال سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں، پہلے تو یہ کہ وہ مخصوص لوگ جو گناہ آلود سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور مسائل پیدا کرتے ہیں اُن کی عدالت کی جائے گی، اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اُن کا رُوحانی درجہ کیا تھا۔ یہ فرشتے کسی وقت خُدا کی جلالی حضوری میں کھڑے ہوا کرتے تھے، لیکن اب وہ دائمی قید میں ہیں۔ اگر خُدا نے اُن فرشتوں کی عدالت کی جنہوں نے گناہ کیا تھا تو خُدا اِن مخصوص لوگوں کی بھی ضرور عدالت کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے یہاں پر ہمیں خبردار کیا جا رہا ہے کہ ہمیں ہر صورت میں خُداوند یسوع مسیح کی پیروی میں چلتے رہنا چاہیے۔ اگر اُن فرشتوں کے ماضی کے روحانی درجے یا حالت نے اُن کی مستقبل کی حالت پر کوئی اثر نہیں ڈالا تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ ہمیں مسلسل رُوحانی طورپر خُدا کےحضور چلتے رہنے کی اور بہت زیادہ چوکنے رہنے کی ضرورت ہے۔ 

  3. (7آیت) سدوم اور عمورہ کی مثال

    اِسی طرح سدوم اور عمورہ اور اُس کے آس پاس کے شہر جو اُن کی طرح حرامکاری میں پڑ گئےاور غیر جسم کی طرف راغب ہوئےہمیشہ کی آگ کی سزا میں گرفتار ہو کر جایِ عبرت ٹھہرے ہیں۔

    1. اِسی طرح سدوم اور عمورہ : یہ دو شہر(اور اِن کے آس پاس کے شہر )بھی خُدا کی عدالت کی واضح مثال ہیں ۔ اُن کا گناہ – جو واضح طور پر ہم جنس پرستی تھا – اور اِس کے ساتھ کچھ دیگر گناہ بھی شامل تھے اُن پر خُدا کی طرف سے قہر اور عذاب لائے۔ 

      1. سدوم اور عمورہ بڑے خوشحال اور مراعات یافتہ علاقے تھے۔ یہ ایک بہت ہی اچھے علاقے میں آباد تھے: یہ سرزمین خُدا کے باغ۔۔۔کی مانند خوب سیراب تھی۔ (پیدایش 13باب10آیت)

    2. جو حرامکاری میں پڑ گئے اور غیر جسم کی طرف راغب ہوئے: یہاں پر یہوداہ پیدایش 19میں بیان کردہ واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں پر سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے ہم جنس پرستی کے فعل کا ذکر کیا گیا ہے۔ حزقی ایل 16 باب 49 آیت میں ہمیں سدوم کے دیگر گناہوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا ہے: دیکھ تیری بہن سدوم کی تقصیر یہ تھی:غرور اور روٹی کی سیری اور راحت کی کثرت اُس میں اور اُسکی بیٹیوں میں تھی۔ اُس نے غریب اور محتاج کی دستگیری نہ کی۔ سدوم کا واحد گناہ جنسی بے راہروی ہی نہ تھا بلکہ دیگر بھی کئی ایک گناہ تھے، اور یہوداہ یہاں پر اُسکی وضاحت کرتا ہے۔ 

      1. حزقی ایل 16باب 49 آیت میں بیان کردہ گناہ ظاہر کرتے ہیں کہ سدوم اور عمورہ حقیقت میں بہت خوشحال اور ترقی یافتہ علاقے تھے۔ اگر آپ کے پاس مادی وسائل اور نعمتیں نہ ہوں تو آپ کے پاس روٹی کی سیری اور راحت کی کثرت نہیں ہو سکتی۔ لیکن اُن کی ساری خوشحالی اور خُدا کی طرف سے عطا کردہ مادی نعمتوں کے باوجود اُنہوں نے خُدا کے حضور گناہ کیا اور خُدا نے اُنکی عدالت کی۔ 

    3. ہمیشہ کی آگ کی سزا میں گرفتار ہو کر جائے عبرت ٹھہرے: پیدایش 19کے بیان کے مطابق سدوم اور عمورہ آسمان سے نازل کردہ آگ سے تباہ کئے گئے۔ لیکن صرف آگ سے اُنکی تباہی اُنکی عدالت کا اختتام نہ تھی۔ پیدایش 19 میں اُس سے بھی بڑھ کر کچھ ہوا، وہ ہمیشہ کی آگ کی سزا میں گرفتار ہو کر جائے عبرت ٹھہرے۔

      1. اِس مثال سے ہمیں دو سبق ملتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ وہ مخصوص لوگ جو گناہ آلود سرگرمیوں میں ملوث تھےاور ہیں چاہے وہ اپنے ماضی میں کتنی ہی زیادہ نعمتوں سے مالا مال کیوں نہ ہوں اُنکی عدالت ضرور کی جائے گی۔ بالکل اُسی طرح جیسے سدوم اور عمورہ مختلف طرح کی نعمتو ں سے مالا مال تھے لیکن بالآخر وہ ہمیشہ کی آگ کی سزا میں گرفتار ہوئے، پس   گناہ آلود زندگیاں گزارنے والےدیگر لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ 

ج: ایسے لوگوں کے مزید گناہ

  1. (8آیت)  اِن خاص لوگوں کا کردار

    تو بھی یہ لوگ بھی اپنے وہموں میں مبتلا ہو کر اُن کی طرح جسم کو ناپاک کرتے اور حکومت کو نا چیز جانتے اور عزت داروں پر لعن طعن کرتے ہیں۔

    1. اُن کی طرح: یہوداہ اِن خاص قسم کے لوگوں کواُنکی شہوت پرستی (جسم کو ناپاک کرنے )اور خُدا کے اختیار کو رد کرنے (حکومت کو ناچیز جاننے)کی وجہ سے سدوم اور عمورہ کے لوگوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔ 

      1. جب یہوداہ اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسے کچھ خاص لوگ اختیار یا حکومت کو ناچیز جانتے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنا اختیار چاہتے تھے۔ اِس لئے وہ خُدا کے اختیار کو رد کرتے تھے اور خُدا کی طرف سے اختیار پانے والوں کو بھی رد  کرتے تھے۔  

      2. آجکل کے دور میں ہمارے معاشرے کے اندر اختیار والوں کو ناچیز جاننے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کو پہچانیں ، اور اپنی زندگی میں صرف اپنے اختیار پر یقین رکھیں۔ ہم بائبل کے صرف چند مخصوص حوالہ جات اور پہلوؤں پر ایمان رکھنے کا انتخاب کرتے ہوئے خُدا کے کلام کے بارے میں ایسا رویہ اپنا سکتے ہیں۔ جس طرح ہم مختلف سبزیوں کا چناؤ کر کے اپنی پسند کا سلاد بناتے ہیں ویسے ہی ہم چند من پسند مذہبی عقائد کو چن کر اپنے ایمان کے ساتھ ایسا رویہ رکھ سکتے ہیں۔یا پھر ہم اپنی زندگی میں اپنے اصول وضع کرتے ہوئے خُدا کی طرف سے مقرر کردہ اختیارات کو رد کر کے اپنی زندگی اپنی مرضی اور اپنے انداز سے جینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ایسا رویہ رکھ سکتے ہیں۔

      3. اسرائیل کے تاریک ترین دور میں اُن کی معاشرتی زندگی کو کچھ اِس طرح سے بیان کیا جاتا تھا: ہر ایک شخص جو کچھ اُسکی نظر میں اچھا معلوم ہوتا تھا وہی کرتا تھا۔(قضاۃ 21 باب 25 آیت)آجکل ایسا ہی کچھ رجحان ساری دُنیا اور بالخصوص مغربی تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔ 

    2. اپنے وہموں میں مبتلا: ممکن ہے کہ یہاں پر یہوداہ کی بات کا یہ مطلب ہے کہ یہ مخصوص لوگ اصل حقیقت سے نا آشنا تھے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کا مطلب یہ ہو کہ ایسے لوگ کچھ نبوتی خوابوں کے دعویدار ہوں جو مکمل طور پر دھوکاتھے۔ 

    3. عزت داروں پر لعن طعن کرتے ہیں: غالباً یہ عزت دار لوگ رسول یا کلیسیا کی قیادت کرنے والے لوگ تھے۔ اُن کے حکومت کو نا چیز جاننے والے رویے کا براہِ راست تعلق عزت داروں پر لعن طعن کرنے سے بھی ہے۔ 

  2. (9آیت) میکائیل فرشتے کی مثال 

    لیکن مقرب فرشتہ میکائیل نے موسیٰ کی لاش کی بابت ابلیس سے بحث و تکرار کرتے وقت لعن طعن کیساتھ اُس پر نالش کرنے کی جرات نہ کی بلکہ یہ کہا کہ خُدا تجھے ملامت کرے۔

    1. مقرب فرشتہ میکائیل۔۔۔ابلیس: یہوداہ نے دو قسم کے فرشتگان کا یہاں پر ذکر کیا ہے۔ میکائیل اُن فرشتگان میں سے ہے جو خُدا کیساتھ وفادار ہیں، جو خُدا کے خادم اور انسانوں کے لئے خدمت گزار روحیں ہیں۔ ابلیس اُن فرشتگان میں سے ہے جنہوں نے خُدا کے خلاف بغاوت کی ہے اور یہ اصل میں انسان کی دشمن روحیں ہیں۔ 

      1. ہمارے چاروں طرف غیر مرئی، ملکوتی ہستیاں موجود ہیں ۔ اُن میں سے کچھ تو خدمت گزاررُوحیں ہیں جو خُدا کی طرف سے بھیجی ہوئی ہیں تاکہ ہماری مدد کریں، اور اِس کے ساتھ ساتھ کچھ شیطانی رُوحیں ہیں جوہمیں شکست دینا چاہتی ہیں۔ ابلیس نہ تو کسی کو نجات دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی نجات چھین سکتا ہے، لیکن وہ اپنی دھوکا دہی کی مدد سے کسی بھی مسیحی کو جسے پاکیزگی  اور مسیح میں آزادی کی زندگی گزارنی چاہیے بدعملی کی طرف مائل کر کے اُسکی زندگی کو گناہ آلود بنا سکتا ہے۔ ابلیس کے نزدیک ہم ٹائم بموں کی طرح ہیں جو اُس کے تمام کاموں کو تباہ کرنے کے لئے بالکل تیار ہیں –  ایسے بم جنہیں وہ ناکارہ کر کے بے ضرر بنانا چاہتا ہے۔ 

      2. آجکل کے دور میں بہت سارے لوگ ابلیس کے وجود پر یقین نہیں رکھتے لیکن بائبل مقُدس کی تعلیم ہے کہ ابلیس موجود ہے۔ اگر کچھ لوگ اُس کے وجود پر یقین رکھتے بھی ہیں تو اُن کے ذہنوں میں ابلیس کی ذات کےمتعلق قرون ِ وسطی ٰ کے کچھ مزاحیہ خاکوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اُس دور میں شعبدہ بازی تفریح کا سب سے اہم ذریعہ تھا۔ اُس دور میں سٹیج کے اوپر ناٹکی کھیل ہوا کرتے تھے جن کے ذریعے سے مختلف مذہبی کہانیا ں لوگوں کے سامنے بیان کی جاتی تھیں۔ اُس ناٹکی کھیل میں لوگ ایک خاص کردار کو لال رنگ کا لباس پہنے، سر پر لمبے لمبے سینگ لگائےاور ایک لمبی لہلہاتی دم کے ساتھ دیکھتے تھے۔ اُس کردار کے جوتے سم والے کھروں کی مانند ہوتے اور وہ ہاتھ میں ایک دوشاخہ کھانچہ/ترنگل پکڑے ہوتا تھا۔ اُس وقت کے لوگ شیطان کی اُس مزاحیہ تصویرکشی سے بہت محظوظ ہوا کرتے تھےاور اُس وقت کے لوگوں نے یہ خیال کرنا شروع کر دیا کہ شیطان ایک مزاحیہ سا کردار ہے۔ بے شک ابلیس کے بارے میں جب لوگ ایسا سوچتے ہیں تو وہ یقیناً اِس بات سے ناراض نہیں ہوتا۔

    2. مقرب فرشتہ میکائیل: اِس خاص فرشتے کاذکر بائبل کے چار مختلف حوالہ جات میں کیا گیا ہے: دانی ایل 10 باب ، دانی ایل 12 باب، مکاشفہ 12باب اور یہوداہ کا خط۔ جہاں پر بھی میکائیل کا ذکر کیا گیا ہے ہم اُسے کسی جنگ کے تناظر میں لڑنے کے لئے تیار ہی دیکھتے ہیں۔ وہ ایک مقرب فرشتہ ہے جس کے سادہ ترین معنی یہ ہیں کہ وہ ایک رہبر فرشتہ ہے۔ 

      1. اگر ابلیس کے مقابلے کی کوئی ہستی ہے تو وہ یقینی طور پر خُدا کی اپنی ذات نہیں، یہ میکائیل فرشتہ ہے – جو اُسی کی طرح کا ایک مقرب اور اعلیٰ سطح پر فائز فرشتہ ہے۔ 

      2. “یہ بات توجہ  طلب ہے کہ مقرب فرشتے کا ذکر کلام کے اندر جمع کے صیغہ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ ممکنہ طور پر ایک ہی مقرب فرشتہ ہو سکتا ہے، ایک ایسا فرشتہ جو سب دیگر فرشتگان کا سربراہ اور رہبر ہو۔ نہ ہی لفظ ابلیس جو بنی نو ع انسان کے سب سے بڑے دشمن کو ملنے والا لقب جمع کے صیغے میں استعمال ہوا ہے۔ گرائے گئے سب فرشتوں کا فرمانروا بھی ایک ہی ہو سکتا ہے۔ ” (کلارک/Clarke)

    3. موسیٰ کی لاش کی بابت بحث و تکرار: یہوداہ کی طرف سے پیش کیا جانے والا یہ بھی ایک مبہم حوالہ ہے۔ موسیٰ کی لاش کے حوالے سے آخری بات جو ہم پڑھتے ہیں وہ استثنا 34 باب 5-6آیات میں مرقوم ہے: “پس خداوند کے بندہ موسیٰ نے خُداوند کے کہے کے موافق وہیں موآب کے ملک میں وفات پائی  ۔ اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل دفن کیاپر آج تک کسی آدمی کو اُسکی قبر معلوم نہیں۔”

      1. ہم نہیں جانتے کہ یہوداہ نے میکائیل اور ابلیس کے درمیان اِس جھگڑے کے بارے میں معلومات کہاں سے حاصل کی ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس نے اِس بارے میں خُدا کی طرف سے کوئی خاص مکاشفہ حاصل کیا ہو۔ لیکن ابتدائی کلیسیا کے اُستادوں کے مطابق اِس بات کے حوالے سے یہوداہ کا اشارہ ایک غیر مستند (اپاکرفا) تحریر Assumption of Moses  کی طرف ہے ، جس کا اِس وقت ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ ہے ۔ 

      2. ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ موسیٰ کی لاش کے حوالے سے یہ جھگڑا ہوا کیوں تھا۔ کچھ لوگ اِس بارے میں یہ رائے پیش کرتے ہیں کہ ابلیس بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کے لئے موسیٰ کی لاش کو اُن کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ اُسکی پرستش شروع کر دیں۔ کچھ دیگر کا خیال ہے کہ ابلیس در اصل موسیٰ کی لاش کی بے حرمتی کرنا چاہتا تھا اور اُس کا قابض بننے کا دعویدار تھا کیونکہ موسیٰ نے اپنی زندگی میں ایک مصری کو قتل کیا تھا۔  

      3. ایسا لگتا ہے کہ ابلیس موسیٰ کی لاش کے حوالے سے خُدا کے منصوبے سے پہلے ہی واقف تھااور وہ خُدا کے اُس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ موسیٰ اپنی موت کے بعد یسوع کی صورت کے تبدیل ہونے کے موقع پر (متی 17باب1-3آیات) ایلیاہ نبی کے ساتھ(جسے 2سلاطین2 باب کے مطابق زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا تھا) اپنے جسم میں ظاہر ہوا۔ مکاشفہ 11باب میں ظاہر ہونے والے دو گواہ بھی غالباً موسیٰ اور ایلیاہ ہی ہیں اور خُدا کو یقیناً مستقبل کے اِن منصوبوں کے لئے موسیٰ کے بدن کی ضرورت تھی۔ 

      4. لیکن یہاں پر یہوداہ کے لئے اہم نقطہ یہ نہیں کہ میکائیل کا ابلیس کےساتھ موسیٰ کی لاش کے حوالے سے کیوں جھگڑا یا مباحثہ ہوا، بلکہ اُس کے لئے اہم نقطہ یہ ہے کہ اُس سب میں میکائیل کا رویہ کیسا تھا۔ 

    4. لعن طعن کیساتھ اُس پر نالش کرنے کی جرات نہ کی بلکہ یہ کہا کہ” خُدا تجھے ملامت کرے۔“ابلیس کے ساتھ میکائیل کے جھگڑے کا طریقہ کار رُوحانی لڑائی یا جنگ کے لئے ایک اچھا نمونہ ہے۔ پہلی بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ میکائیل اِس خاص صورتحال میں حالتِ جنگ میں ہے اور دوسری بات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ میکائیل وہ جنگ خُدا کے اختیار کے ساتھ لڑتا ہے۔ 

      1. اِس سے ہمیں یہ ثبوت ملتا ہے کہ میکائیل فرشتہ یسوع نہیں ہے جیسا کہ کچھ بدعتی فرقے مانتے ہیں۔ یسوع نے اپنے اختیار کے ساتھ ابلیس کو سرزنش کی لیکن میکائیل ایسا نہیں کرتا۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ میکائیل اپنے اختیار کی بناء پر ابلیس کے الزامات کی تردید نہ کر سکا۔” (باؤک حام/Bauckham)

      2. واضح طور پر میکائیل نے لعن طعن کر کے ابلیس پر نالش کرنے کی جرات نہ کی ۔ میکائیل نے ابلیس کو نہ تو ٹھٹھوں میں اُڑایا اور نہ ہی اُس پر الزام لگایا۔ خُدا نے ہمیں ابلیس کی عدالت کرنے، اُس پر ملامت کرنے ، اُسے ٹھٹھوں میں اُڑانے یا اُسے موردِ الزام ٹھہرانے کے لئے نہیں بلایا بلکہ ہمیں اُس کے ساتھ خُداوند کے نام اور اُس کے اختیار میں جنگ کرنے کے لئے بلایا ہے۔ 

      3. اِس بات کایہوداہ اُن خاص آدمیوں(جھوٹے اُستادوں) کے رویے کے ساتھ موازنہ کرتا ہے۔ اگر میکائیل نے ابلیس کو ملامت کر کے اُس پر نالش کرنے کی جرات نہ کی تواِس سے کس قدر زیادہ ایسے آدمیوں کو چاہیے کہ وہ اختیار والوں اورعزت داروں کے خلاف نہ بولیں۔ 

  3. (10آیت ) ایسے لوگوں کا مزید بُرا کردار

    مگر یہ جن باتوں کو نہیں جانتے اُن پر لعن طعن کرتے ہیں اور جن کو بے عقل جانوروں کی طرح طبعی طور پر جانتے ہیں اُن میں اپنے آپ کو خراب کرتے ہیں۔

    1. مگر یہ لعن طعن کرتے ہیں: میکائیل کے برعکس جس نے ابلیس کے خلاف کچھ بُرا بولنے کی جرات نہ کی ، ایسے اشخاص برائی کرتے ہیں بالخصوص اُس وقت جب وہ حکومتوں کے خلاف بولتے ہیں اور عزت داروں پر لعن طعن کرتے ہیں۔  

    2. جن باتوں کو نہیں جانتے: ایسے لوگ ایسی باتوں یا ایسے لوگوں کے بارے میں بھی مکمل طور پر نہیں جانتے جن پر وہ لعن طعن کرتے ہیں۔ اُن کی وہ بدکلامی اُن کی جہالت یا بے خبری کی وجہ سے مزید بُری ہو جاتی ہے۔ 

      1. چونکہ ایسے لوگ حکومت کو ناچیز  جانتے اور عزت داروں پر لعن طعن کرتے ہیں ، ایسے لوگوں کو حقیقی رُوحانی قیادت اور اختیار کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہے ۔ اِس لئے اُنہیں ایسے لوگوں کے خلاف بات کرنا آسان لگتا ہے۔ 

    3. جن کو بے عقل جانوروں کی طرح طبعی طور پر جانتے ہیں اُن میں اپنے آپ کو خراب کرتے ہیں: ایسے خاص لوگ اپنے آپ کو رُوحانی ظاہر کرتے ہیں لیکن اُن کا تمام کا تمام علم طبعی ہے۔ اگرچہ کئی باتیں وہ طبعی طور پر جانتے بھی ہیں لیکن اِس کے باوجود وہ غیر روحانی ذہن رکھنے کی بدولت اپنے آپ کو بد اعمال بنا لیتے ہیں۔ 

      1. بے عقل جانور یقینی طور پر جبلتی کاموں میں کافی ہوشیار ہوتے ہیں لیکن اُن کے پاس قطعی طور پر رُوحانی علم نہیں ہوتا۔ اِن خاص لوگوں کا بھی ایسے جانوروں جیسا ہی حال تھا۔ 

      2. “یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب کچھ لوگ صاحبِ علم ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں تو اُس وقت وہ جہالت کی حالت میں ہوتے ہیں، جس وقت وہ اپنے آپ کو دیگر عام انسانوں سے برتر خیال کرتے ہیں وہ در اصل بے عقل جانوروں کے درجے پر ہوتے ہیں، اور وہ سرگرمیاں جن میں وہ اپنی آزادی اور اپنی ذات کا اظہار ڈھونڈنے میں کوشاں ہوتے ہیں اُنہی کی بدولت وہ بداعمالی میں چلے جاتے ہیں۔” (گرین/Green)

د: ایسے لوگوں کی تین مثالیں

  1. (11آیت الف) یہ مخصوص لوگ قائن کی راہ پر چلے

    اِن پر افسوس!کہ یہ قائن کی راہ پر چلے

    1. قائن کی راہ : قائن کی کہانی پیدایش 4 باب میں پائی جاتی ہے۔ آدم کے بچے جب خُدا کے حضور قربانیاں گزراننے کے لئے  آئے تو قائن بھی (جو ایک کسان تھا) اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خُداوند کے واسطے لایا۔ ہابل جو کہ ایک چرواہا تھا اپنی بھیڑ بکریوں میں سے ہدیہ لے کر آیا۔ خُدا نے ہابل کے ہدیے کو تو قبول کر لیا لیکن اُس نے قائن کے ہدیے کو منظور نہ کیا۔ 

      1. بہت سارے لوگ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ ہابل ایسی قربانی لایا جس میں قربان ہونے والے جانوروں کا خون بہایا گیا اور قائن محض اپنے کھیت کی فصل میں سے لے آیا ، اِس لئے اِن دونوں قربانیوں میں اہم فرق اور اہم چیز بہایا جانے والا خون تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقی فرق ایمان اور بے ایمانی کا تھا۔ عبرانیوں 11باب 4 آیت اِس بات کی وضاحت کرتی ہے: ایمان ہی سے ہابل نے قائن سے افضل قربانی خُدا کے لئے گزرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی گئی کیونکہ خُدا نے اُس کی نذروں کی بابت گواہی دی اور اگرچہ وہ مر گیا ہےتو بھی اُسی کے وسیلہ سے اب تک کلام کرتا ہے۔ 

      2. قائن کی قربانی ہابل کی طرف سے نذر کردہ ذبح کئے ہوئے برے کی لاش کی نسبت حواس کو زیادہ خوشنما معلوم ہوتی ہوگی۔ لیکن چونکہ اُس نے وہ قربانی ایمان کے بغیر گزرانی تھی اِس لئے وہ خُدا کے حضور منظور نہ ہوئی۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے اور جو کچھ آپ میں ہے آپ اُسے خُدا کے حضور گزران سکتے ہیں لیکن ہمیں وہ سب کچھ ایمان کے ساتھ اُس کے حضور لانے کی ضرورت ہے۔  

    2. قائن کی راہ :  پیدایش 4باب 5 آیت بیان کرتی ہے کہ جب خُدا نے قائن کی قربانی کو نا منظور کیا تو وہ غضبناک ہواا ور اُس کا منہ بگڑا۔ وہ اِس وجہ سے ناراض ہوا کہ خُدا نے اُس کی قربانی کو نا منظور کیا تھا اور اپنے اُس غصے میں اُس نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا اور بعد میں اُس کے بارے میں اُس نے خُدا سے جھوٹ بھی بولا۔ 

      1. 1یوحنا 3باب 12 آیت بیان کرتی ہے کہ قائن نے اپنے بھائی کو اِس لئے قتل کیا کیونکہ اُسکے بھائی کے کام راستی کے تھے جبکہ قائن کے اپنے کام بُرے تھے۔ قائن میں کمی اعمال یا کاموں کی نہیں تھی بلکہ ایمان کی تھی۔ 

    3. قائن کی راہ :  یہوداہ کہتا ہے کہ قائن ایک ایسے رویے کی علامت ہے جسے بہت سارے ایسے لوگ اپناتے ہیں۔ یہ بے ایمان اور کھوکھلے مذہب کی راہ ہے جو حسد، نیکوکار لوگوں کی ایذا رسانی اور بعد میں قتل  کی حد تک لےجاتی ہے۔  

      1. خالی اورفضول مذہب سے بڑی اِس دُنیا میں کوئی اور لعنت نہیں ہے، جس میں لوگ دینداری کی وضع تو رکھتے ہیں لیکن اُس کے اثر کو قبول نہیں کرتے(2تیمتھیس 3باب5آیت)۔ پس اِسی وجہ سے پولس رسول کہتا ہے کہ ایسو ں سے کنارہ کرنا۔ 

      2. آج کل کے دور میں بہت سارے مسیحی لا دین مذہبِ انسانیت یا دہریت اور یا پھر دُنیا سے کافی حد تک خوفزدہ ہیں۔ لیکن حقیقت میں مُردہ مذہب اِن سب سے کہیں زیادہ خطر ناک ہےاور کسی بھی اور چیز سے زیادہ یہی لوگوں کو جہنم میں بھیجتا ہے۔ یہ کچھ خاص لوگ قائن کی راہ پر گامزن ہیں جو کہ مُردہ مذہب کی راہ ہے۔ 

  2. (11آیت ب) (اُنہوں نے ) بلعام کی سی گمراہی اختیار کی: 

    اور مزدوری کے لئے بڑی حرص سے بلعام کی سی گمراہی اختیار کی۔

    1. بلعام کی سی گمراہی :  بلعام کی کہانی گنتی کی کتاب 22تا25 اور 31 ابواب میں مرقوم ہے۔ خروج کے موقع پر بنی اسرائیل قوم اموریوں کو شکست دینے کے بعد موآب کی سرزمین کی طرف جا رہی تھی۔ جب بنی اسرائیل نزدیک آئے تو موآب کے بادشاہ بلق نے بلعام نامی ایک نبی سے مدد مانگی۔ 

      1. بلق بادشاہ کی طرف سے جب پہلا وفد بلعام کے پاس پہنچا تو خُدا نے اُسے صاف بتا دیا کہ وہ اُن لوگوں سے کوئی کام نہ رکھے۔ بلعام کو بتائے گئے خُدا کے ابتدائی الفاظ یہ تھے، ” تُو اِن  کے ساتھ مت جانا، تُو اُن لوگوں پر لعنت نہ کرنا کیونکہ وہ مبارک ہیں۔” (گنتی 22باب 12آیت)

      2. پہلے وفد کے جانے کے بعد ایک اور زیادہ اعلیٰ سطح کا وفد اُس کے پاس بہت سارا مال اسباب لے کر آیا۔ بلعام اُن کے ساتھ جانا چاہتا تھا اور خُدا نے بھی اُسے جانے کی اجازت دے دی۔ بلعام کے دل میں مال و دولت اور رتبے و امتیاز کی حوس تھی اور خُدا نے اُسے اُس کے گناہ ہی کے حوالے کر دیا۔ 

      3. جس وقت بلعام بلق بادشاہ سے ملنے کے لئے جا رہا تھاتو خُدا نے اُسے خبردار کیا تاکہ وہ واپس لوٹ جائے۔ لیکن اُس کا دل اُس بڑے انعام و کرام پر لگا ہوا تھا جس کا وعدہ بلق بادشاہ نے اُس سے کیا تھا، پس اُس نے آگے جانا جاری رکھا۔ بلعام نے اپنی گدھی کے بات کرنے کو بھی نظر انداز کیا حالانکہ خُدا نے اُسے خبردار کرنے کے لئے یہ سب کیا تھا۔ 

      4. بلعام جانتا تھا کہ اُس نے غلط کیا ہے۔ گنتی 22باب 34 آیت میں وہ خُدا کو کہتا ہے کہ “مجھ سے خطا ہوئی ہے۔۔۔سو اگر اب تجھے بُرا لگتا ہے تو مَیں لوٹ جاتا ہوں۔” لیکن اِس کے باوجود وہ واپس لوٹا نہیں تھا۔ اُس نے اپنا سفر جاری رکھا، جب خُدا اُسے کہہ رہا تھا کہ “نہیں” اُس نے اُس پر توجہ نہ دی۔ جب خُدا کسی بات کے بارے میں ہمیں “نہیں” کہے تو ہمیں اُسے ماننا چاہیے۔ پس خُدا نے بلعام کو وہی دیا جو اُسکا گنہگار دل خواہش کئے ہوئے تھا۔ 

      5. موآب کے بادشاہ بلق سے ملنے کے بعد بلعام نے اسرائیل پر چار دفعہ نبوت کی ۔ لیکن جیسے ہی اُس نے کلام کیا تو اُس نے اسرائیل پر لعنت نہ کی بلکہ ہر دفعہ اُسے برکت ہی دی۔ جب وہ خود اسرائیل پر لعنت کرنے میں ناکام رہا تو اُس نے بلق کو ایک نصیحت کی جس کی مدد سے بنی اسرائیل کولعنت تلے لایا جا سکتا تھا۔ اُس نے بلق کو سمجھایا کہ کسی نبی کے ذریعے بنی اسرائیل پر لعنت کرنے کی بجائے اُسے بنی اسرائیل کو کسی طرح سے حرامکاری اور بت پرستی کی طرف راغب کرنا چاہیے، اگر ایسا ہو گیا تو خُدا خود ہی اُس نافرمان قوم پر لعنت بھیجے گا۔ 

      6. پس بلق نے بالکل ویسا ہی کیا، اُس نے اپنی قوم کی نوجوان عورتوں کو اسرائیلی خیموں میں بھیجا تاکہ وہ اسرائیلی مردوں کو حرامکاری اور بت پرستی کی طرف راغب کریں۔ لوگوں کے ایسے گناہ کی وجہ سے خُدا نے لوگوں پر لعنت کی –  وہ اسرائیل پر عدالت کی وبا لایا جس کی وجہ سے 24000 لوگ مارے گئے۔ اِس وجہ سے بلعام بڑے ترین گناہ کا مرتکب تھا: جو کہ دوسروں کو جان بوجھ کر گناہ میں دھکیلنا ہے۔ یہ ایک گھناؤنا کام ہے جو اُس نے دولت کے لالچ میں کیا۔ 

    2. مزدوری کے لئے حرص کی غلطی :  لالچی بلعام کی غلطی یہ تھی کہ وہ دولت کے حصول کی خاطر ہر ایک چیز پر سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار تھا۔ وہ خاص لوگ جن کی یہاں پر یہوداہ بات کرتا ہے بلعام جیسا دل رکھتے تھے۔ 

      1. بہت سارے مسیحی سخت ترین ایذارسانی میں بھی مسیح کا انکار نہیں کریں گے لیکن کئی دفعہ جب اُنہیں بہت زیادہ رقم کی پیشکش کی جاتی ہے تو وہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی ایک بھی ایسا گناہ نہیں جسے بداعمال شخص دولت کی خاطر نہ کرنے کے لئے تیار ہو۔ لالچ ایسا خطرناک گناہ ہے کہ یسوع کے پکڑوائے جانے اور مصلوب ہونے میں اِس نے اہم ترین کردار ادا کیا – چاندی کے تیس سکوں نے یسوع کو مصلوب کروانے میں کافی بڑا کردار ادا کیا۔ 

      2. بڑی حرص کے معنی یہاں پر یہ ہیں کہ اُنہوں نے اپنے آپ کو لالچ کی خاطر اُنڈیل دیا ہے(روبرٹسن/Robertson)۔ یہ لالچ میں ملوث ہونے کی ایک بہت بڑی تصویر کشی ہے۔ پولس خُدا کی ہمارے لئے لازوال اور نہایت گراں قدر محبت کے لئے بھی یہی اصطلاح استعمال کرتا ہے: “۔۔۔خُدا کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی جاتی ہے۔” (رومیوں 5باب 5 آیت) 

  3. (11آیت ج) اِن مخصوص لوگوں نے قورح کی طرح مخالفت(بغاوت) کی

    اور قورح کی طرح مخالفت کر کے ہلاک ہوئے

    1. قورح کی بغاوت :  قورح کی کہانی گنتی 16 باب میں مرقوم ہے۔ وہ اسرائیل کے اندر ایک نمایاں شخص تھا، ایک دن وہ موسیٰ کے پاس آیا اور اُس سے کہا کہ : تمہارے  تو بڑے دعوے ہو چلے، کیونکہ جماعت کا ایک ایک آدمی مقدس ہے سو تم اپنے آپ کو خُداوند کی جماعت سے بڑا کیوں ٹھہراتے ہو؟ (گنتی 16باب3آیت) قورح اور اُس کے پیروکار موسیٰ اور ہارون سے اُن کے اختیار کی وجہ سے کینہ رکھتے تھے۔ 

      1. جس وقت قورح نے ایسا کہا تو موسیٰ اپنے منہ کے بل زمین پر جھک گیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اِس بات کی وجہ سے خُدا ضرور اُنکی عدالت کرے گا۔ پھر موسیٰ نے ایک آزمائش تجویز کی: اُن میں سے ہر گروہ نے اپنا اپنا بخودر دان لیا(تاکہ خُدا کے حضور بخور جلائے)۔ موسیٰ نے کہا کہ خُدا خود انتخاب کرے گا کہ اُسے اپنے نمائندے کے طور پر کون سا شخص چاہیے،موسیٰ یا قورح۔

      2. جب وہ دونوں گروہ خُدا کے حضور آئے تو خُدا نے اُسے اور جماعت کو حکم دیا کہ وہ قورح اور اُسکے ساتھیوں کے خیموں کے پاس سے دور ہٹ جائے۔ پھر زمین پھٹ گئی اور اُس نے قورح، اُسکے آدمیوں اور اُنکے سب مال اسباب کو نگل لیا۔ پھر آسمان سے آگ نازل ہوئی اور قورح کی حمایت میں چلنے والے لوگوں کو جلا کر بھسم کر ڈالا۔ وہ سب کے سب ہلاک ہوئے۔ 

    2. مخالفت(بغاوت) :  قورح ایک لاوی تھا لیکن وہ ہارون کے کاہن گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ ایک لاوی کے طور پر اُسکی اپنی ایک خاص خدمت تھی جو خُدا نے اُس کے سپر د کی تھی، لیکن وہ اپنی اُس خدمت یا عہدے پر قناعت نہیں کرتا تھا۔ وہ موسیٰ کی خدمت اور اختیار حاصل کرنا چاہتا تھا۔ 

      1. قورح کو یہ اہم سبق سیکھنے کی ضرورت تھی : ہمیں اُس خدمت کو پورا کرنے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے خُدا نے ہمیں بلایا ہے۔ اِس کے ساتھ ہی ہمیں کبھی بھی ویسے بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جس کے لئے خُدا نے ہمیں بلایا نہیں ہے۔ 

    3. قورح کی مخالفت : یہ خُدا کی طرف سے مقرر کردہ قیادت کو مسترد و نامنظور کرنا تھا، بالخصوص خُدا کی طرف سے مقرر کردہ درمیانی کو۔جس وقت یہوداہ کے دور میں اُن مخصوص اشخاص نے حکومت اور اختیار کو ناچیز جانا اور عزت داروں پر لعن طعن کی تو وہ قورح کی راہ پر چلتے ہوئے باغی بنے اور اُنہوں نے مخالفت کی۔ 

      1. قورح کی مخالفت (بغاوت ) “کا تعلق خُدا کی طرف سے جاری کردہ ضابطوں اور فرمانوں کے خلاف توہین آمیز اور پر عزم دعویداری اور حق جتانے سے ہے۔” (سالمنڈ/Salmond ، The Pulpit Commentary )

      2. یہ تینوں آدمی بالکل مختلف پس منظر سے آئے تھے: قائن ایک کسان تھا، بلعام ایک نبی تھا اور قورح بنی اسرائیل میں ایک قائد تھا۔ برگشتگی کا تعلق کسی ایک خاص فرقے یا گروہ کیساتھ نہیں ہے۔”مرتد، غدار اور برگشتہ منبر پر ، کسی محل میں اور کسی غریب گھر میں بھی ہو سکتا ہے۔ ” (کوڈر/Coder)

ہ: ایسے لوگوں کا مستقبل کیا ہے

  1. (12-13 آیات) اِن مخصوص لوگوں کی کے اخلاقی زوال، سیاہ کاری، کھوٹ کا واضح بیان

    یہ تمہاری محبت کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ کھاتے پیتے وقت گویا دریا کی پوشیدہ چٹانیں ہیں۔ یہ بے دھڑک اپنا پیٹ بھرنے والے چرواہے ہیں۔ یہ بے پانی کے بادل ہیں جنہیں ہوائیں اُڑا لے جاتی ہیں۔ یہ پت جھڑ کے بے پھل درخت ہیں جو دونوں طرح سے مرُدہ اور جڑ سے اُکھڑے ہوئے ہیں ۔ یہ سمندر کی پُر جوش موجیں ہیں جو اپنی بے شرمی کے جھاگ اُچھالتی ہیں۔ یہ وہ آوارہ گرد ستارے ہیں جن کے لئے ابد تک بے حد تاریکی دھری ہے۔ 

    1. محبت کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ : ابتدائی کلیسیا میں لوگ اکثر رفاقت کے دوران کھانا بھی کھایا کرتے تھے، ہر کوئی اپنے گھر سے کچھ نہ کچھ لیکر آتا جسے سب ملکر کھاتے تھے۔ وہ اِس طرح کی رفاقتوں اور کھانوں کو محبت کی ضیافت کہا کرتے تھے۔ جب ایسی ضیافتوں میں ایسے خاص لوگ آتے تو وہ صرف اپنی ذات پر ہی مرکوز ہوتے ۔ وہ لالچ کرتے ہوئے بہت زیادہ کھانا کھا جایا کرتے جبکہ دیگر کئی لوگ بھوکے رہ جاتے تھے۔ 

      1. محبت کی ضیافت میں ہر کوئی کچھ نہ کچھ لے کر آتا تھا –  کوئی کم ، کوئی زیادہ، لیکن وہ سب آپس میں بانٹا کرتے تھے۔ کچھ غلامو ں کے لئے جو مسیح کو قبول کر چکے تھے شاید یہی کسی حد تک کچھ اچھا کھانا ہوتا تھا جسےوہ ایسی ضیافتوں میں کھا سکتے تھے۔ لیکن ایسے مخصوص لوگوں کی خودغرضی ایسی ضیافتوں اور رفاقت کا ستیا ناس کر دیتی تھی۔ 1کرنتھیوں 11باب17-34 آیات کرنتھس کی کلیسیا میں ایسے ہی ایک مسئلے کو بیان کرتی ہیں۔ 

      2. ہر دفعہ جب ہم کلیسیا میں خود غرض  “صرف مجھے برکت ملنی چاہیے”والا رویہ رکھتے ہوئے آتے ہیں تو کلیسیا ئی رفاقت خراب ہوتی ہے۔ بہت سارے ایسے لوگ جواگرچہ کلیسیائی ضیافتوں میں لالچ کیساتھ نہیں کھاتےلیکن وہ اکثر کلیسیا کی دیگر سرگرمیوں میں  صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے والے رویے کیساتھ آتے ہیں۔ 

      3. پوشیدہ چٹانیں  :  کچھ انگریزی ترجموں میں پوشیدہ چٹانوں کی جگہ پر لفظ Spots بمعنی دھبے لکھا ہوا ہے۔ لیکن کچھ یونانی عالمین کا خیال ہے کہ جس لفظ کا ترجمہ کئی لوگ “دھبے” کرتے ہیں اُس کا ترجمہ پوشیدہ چٹانیں ہی ہونا چاہیے۔ اِس کا ترجمہ کچھ بھی ہو یہ اِس حوالے کے اصل معنی یا مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ 

      4. اپنا پیٹ بھرنے والےچرواہے :   قدیم یونانی زبان میں اِس اصطلاح کے معنی ہیں “اپنی ذات کی گلہ بانی کرنا” (روبرٹ سٹون)۔ وہ ایک طرح سے چرواہے ہی تھے لیکن وہ اپنی ذات کو ہی پال رہے تھے، صرف اپنی ہی گلہ بانی کر رہے تھے 

    2. بے پانی کےبادل جنہیں ہوائیں اُڑا لے جاتی  ہیں: بے پانی بادل کسی بھی کام کے نہیں ہوتے۔ وہ زندگی بخش بارش کا سبب تو بنتے نہیں اِس کے برعکس وہ سورج کی روشنی کو بھی زمین پر پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ وہ صرف اپنے آپ کے لئے ہی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ یہ مخصوص لوگ اِنہی بے پانی بادلوں کی طرح تھےاور ایسے لوگ ہر دور میں موجود ہوتے ہیں۔ 

      1. ایک دفعہ ہم اپنی گاڑی میں ایک فیکٹری کے پاس سے گزر رہے تھے تو میری بیٹی این۔ صوفی نے فیکٹری کی بڑی چمنیوں میں سے نکلتے ہوئے دھوئیں کو دیکھا تو کہنے لگی کہ”اچھا تویہ وہ جگہ ہے جہاں پر بادل بنائے جاتے ہیں۔” یہ مخصوص لوگ اِن خالی بادلوں کی طرح تھے ، جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اُنہیں ہوا اُڑائے پھرتی ہے، وہ صبح کی ہوا کیساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر پھرتے رہتے ہیں۔ 

    3. پت جھڑ کے بے پھل درخت : پت جھڑ کے ختم ہونے کے وقت عام طور پر درختوں پر پھل لگ چکا ہوتا ہے۔ لیکن ان مخصوص لوگوں نے جس وقت اُنہیں پھل دینا چاہیے تھا پھل نہیں دیا۔ وہ ایسے درختوں کی مانند تھے جو کچھ دینے کی بجائے لیتے ہی رہتے ہیں۔ 

    4. سمندر کی پرجوش موجیں : جدید دور کے انسان کے لئے سمندر ایک خوبصورت چیز ہے۔ لیکن قدیم دور بالخصوص بائبلی زمانہ کے لوگوں کے لئے سمندر ایک ایسی خوفناک چیز تھا جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یسعیاہ 57باب 20 آیت میں ہمیں اِس کے بارے میں کچھ معلومات ملتی ہیں: لیکن شریر تو سمندر کی مانند ہیں جو ہمیشہ موجزن اور بے قرار ہے جس کا پانی کیچڑ اور گندگی اُچھالتا ہے۔یہ مخصوص لوگ بھی سمندر کی موجوں کی طرح بڑے مصروف اور ہر وقت فعال تھے، لیکن وہ ہمیشہ ہی صرف اپنی بے شرمی کی جھاگ اُچھالتے تھے۔ 

      1. مصروفیت درست یا راست ہونے کی علامت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی سرگرمیوں کا پھل سمندر کے کنارے پر جھاگ یا گندگی تھا۔ جب یہوداہ یہ لکھ رہا تھا تو اُس کے ذہن میں کسی طوفان کے بعد بہہ کر آنے والی لکڑی، سمندری جڑی بوٹیوں اور ملبے سے بھرا ہوا گندہ سمندری کنارہ تھا۔ 

    5. آوارہ گرد ستارے: اپنے پیچھےایک لمبی لکیر کا سا نشان چھوڑنے والے دم دار ستارے کی طرح اِن مخصوص لوگوں نے ایک خاص وقت تک تو لوگوں کو حیرت میں ڈالے رکھا،  لیکن پھر تاریکی میں گم ہو گئے۔ کوئی بھی غیر متوقع ستارہ رہنمائی یا سمت شناسی کے لئے کبھی بھی کسی طور پر مفید نہیں ہے۔ اِسی طرح یہ دھوکے باز بھی بے کار اور نا قابل اعتبار تھے۔ 

    6. ابد تک بے حد تاریکی: یہ اُنکی منزل کو بیان کرتی ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو وہ جہنم میں جائیں گے –  اور ابد تک وہیں پر رہیں گے۔ 

      1. جہنم کی سزا ہمیشہ تک کے لئے ہے، کیونکہ ایک عام انسان خود سے اپنے گناہوں کی قیمت ادا کر رہا ہوگا، وہ ایک ناکامل قربانی گزرانے گا اور یہ عمل ابدیت تک بار بار دہرایا جائے گا۔ ایک کامل انسان تو صرف ایک ہی قربانی گزران سکتا ہے لیکن ایک ناکامل انسان کو مسلسل قربانی گزراننے کی ضرورت ہے۔ 

      2. خُدا کی ذات کے تعلق سے ہماری ذمہ داریاں لا محدود ہیں اِس لئے وہ یسوع کی ذات میں ہی پوری ہو سکتی ہیں جو ایک لا محدود ذات ہے۔ 

  2. (14-15 آیات ) اِن مخصوص لوگوں کی عدالت کا یقین 

    اِن کے بارے میں حنوک نے بھی جو آدم سے ساتویں پشت میں تھا پیشن گوئی کی تھی کہ دیکھو۔ خُداوند اپنے لاکھوں مقُدسوں کے ساتھ آیا۔ تاکہ سب آدمیوں کا انصاف کرےاور سب بے دینوں کو اُن کی بے دینی کے اُن سب کاموں کے سبب سے جو اُنہوں نے بے دینی سے کئے ہیں اور اُن سب سخت باتوں کے سبب سے جو بے دین گنہگاروں نے اُس کی مخالفت میں کہی ہیں قصور وار ٹھہرائے۔

    1. حنوک : یہاں پر یہوداہ نے حنوک کا حوالہ دیا ہے جس کے بارے میں پیدایش 5 باب میں بیان کیا گیا ہے اور جس کا ذکر عبرانیوں 11باب میں بھی ہوا ہے۔ حنوک کی قدیم کتاب کو کلام ِ مقدس کے طور پر تو کبھی بھی قبول نہیں کیا گیا لیکن یہودی اور ابتدائی کلیسیا کے مقدسین اُسے بہت زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

      1. “ٹرٹولیئن ہمیں بتاتا ہے کہ حنوک کی کتاب کی نبوتوں کو نوح نے اپنی کشتی میں رکھ لیا تھا اور وہ کتاب محفوظ رہی اور رسولوں کے دور تک پڑھی جاتی رہی۔ لیکن چونکہ اُس کتاب میں یسوع مسیح کے بارے میں بہت ساری مشہور گواہیاں تحریر کی گئی تھیں اِس لئے یہودیوں نے عداوت کی وجہ سے اُس کتاب کو دبا دیا اور پھر آہستہ آہستہ مکمل طور پر ختم کر دیا۔ ” (ٹراپ/Trapp)

      2. یہوداہ نے حنوک کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں کوئی نئی چیز نہیں بتائی بلکہ اُسی چیز کی مزید وضاحت کی ہے جو بائبل پہلے ہی سے ہمیں سکھاتی ہے۔ پولس رسول نے بھی کم از کم تین مختلف مقامات پر غیربائبلی وسائل سے حوالہ جات پیش کئے ہیں (اعمال 17 باب 28 آیت؛ 1کرنتھیوں 15باب 33 آیت اور ططس 1باب 12 آیت)۔ یہ کسی نئی سچائی کو بیان کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ بائبل میں پہلے سے موجود اصول کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئےتھا۔ 

      3. یہوداہ کے حنوک کی کتاب کا حوالہ دینے  کا یہ قطعاً مطلب نہیں ہے کہ حنوک کی تمام کی تمام کتاب الہامی تھی۔  لیکن صرف وہ حصہ جس کا حوالہ یہوداہ دیتا ہے وہ ایک الہامی سچائی ہے۔ اِسی طرح جب پولس غیر قوم کے شاعروں کا حوالہ دیتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اُن شاعروں کی شاعری الہامی ہے۔ 

    2. سب بے دینوں کو قصور وار ٹھہرائے : حنوک کی کتاب کے اِس حوالے میں یہوداہ نے دو الفاظ”سب” اور “بے دینوں” پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ خُدا تمام بے دینوں اورگُنہگاروں کی عدالت کرنے کوآرہا ہے۔ 

    3. تاکہ سب آدمیوں کا انصاف کرے : بہت سارے لوگ خُدا کی عدالت کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ لیکن اس دُنیا میں سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ “کیا خُدا میری عدالت کرے گا؟ کیا مَیں اُسے جواب دہ ہوں؟” اگر ہم حقیقی طور پر خُدا کو جوابدہ ہیں تو پھر اگر ہم خُدا کی عدالت کا سامنا کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے تو ہم بیوقوف ہیں۔ 

      1. کسی ایسے انسان کا تصور کریں جو کسی جرم میں گرفتار ہوا ہو اور اُسے عدالت میں پیش ہونے کی ایک خاص تاریخ ملی ہو – لیکن وہ اپنی پیشی کے حوالے سے جج کے سامنے حاضر ہونے کی بالکل کوئی تیاری نہ کرے۔ ایسا شخص یقینی طور پر بیوقوف ہوگا۔ ہمیں اِس طرح سے بیوقوفی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ ہمیں عدالت کی طرف سے ہمارے لئے مقرر کردہ وکیل  – یسوع مسیح کی ذات سے مستفید ہونا چاہیے۔ (1یوحنا 2باب 1آیت)

  3. (16-18 آیات ) ایسے مخصوص لوگوں کے طور طریقے

    یہ بڑبڑانے والے اور شکایت کرنے والے ہیں اور اپنی خواہشوں کے موافق چلتے ہیں اور اپنے مُنہ سے بڑے بول بولتے ہیں اور نفع کے لئے لوگوں کی رُوداری کرتے ہیں۔ لیکن اَے پیارو!اُن باتوں کو یاد رکھو جو ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے رسول پہلے کہہ چکے ہیں ۔ وہ تم سے کہا کرتے تھے کہ اَخیر زمانہ میں ایسے ٹھٹھا کرنے والے ہوں گے جو اپنی بے دینی کی خواہشوں کے موافق چلیں گے۔

    1. بڑبڑانے والے، شکایت کرنے والے۔۔اپنے منہ سے بڑے بول بولتے ہیں۔۔۔لوگوں کی رُوداری کرتے ہیں۔:یہوداہ دیکھتا ہے کہ اُن کے سب طریقے الفاظ کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ اُن کی مشکوک ترین زندگیوں میں سب سے بڑھ کر وہ دھوکہ باز لوگ تھے، جو مسیح ، رسولوں اور نبیوں کی رکھی ہوئی بنیاد پر سے ہٹ گئے تھے۔ 

    2. بڑبڑانے والے، شکایت کرنے والے :  یہ لوگ شکایتیں کرنے والے تھے۔ یہ بالکل درست مشاہدہ ہے کہ جب بھی لوگ اپنی زندگیوں میں خُدا کیساتھ تعلق ختم کر دیتے ہیں، وہ اپنے کاموں اور زندگی کے حوالے سے کسی نہ کسی چیز کے متعلق شکایتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ 

      1. بڑبڑانا “دراصل خُدا کی تحقیر کرنا ہے جو ہمیں ہر ایک چیز دیتا ہے، ایسا کرنا در اصل اِس بات کو بھول جانا ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز ہمیں مسیح کی محبت سے جدا نہیں کر سکتی اور نہ ہی مسیح کی ہماری زندگیوں میں موجودگی جیسے بیش قیمت خزانے سے ہمیں محروم کر سکتی ہے۔ ” (گرین/Green)

      2. “آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کی طرف یہاں پر اشارہ کیا گیا ہے، کوئی بھی چیز اُنہیں اطمینان نہیں بخشتی۔ وہ تو انجیل کے حوالے سے بھی عدم اطمینان کا شکار ہوتےہیں۔ آسمانی روٹی کو اگر تین حصوں میں کاٹ کر انتہائی لطیف اور نازک رومال پر رکھ کر  اُنہیں پیش کریں تو ٹھیک ہےورنہ وہ اُسے بھی نہیں کھا سکتے ، اور بہت جلد اُنکی رُوح ایسی زبردست خوراک سے بھی نفرت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ایسا کوئی طریقہ نہیں جس کے ذریعے سے کوئی مسیحی شخص خُدا کی خدمت کرے اور ایسے لوگوں کو پسند آ جائے۔ وہ ہر ایک مبشر انجیل کی پوشاک میں سوراخ تلاش کر لیتے ہیں، اور اگر ہمارا عظیم کاہن اعظم یہاں پر ہوتا تو وہ اُسکے سینہ بند پر موجود پتھروں کے رنگوں میں بھی کوئی نہ کوئی خرابی تلاش کر لیتے۔”(سپرجن/Green)

    3. لوگوں کی رُوداری کرنا :  یہ مخصوص لوگ جانتے ہیں کہ کیسے میٹھے بول بولتے ہوئے اور دوسروں کی خوشامد کرتے ہوئےدوسروں سے فائدہ  اُٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے فائدے کے لئے کچھ بھی  –  اچھا یا برا کہہ ڈالیں گے۔  

    4. لیکن اَے پیارو! یاد رکھو : ہمیں ایسے لوگوں سے مختلف ہونا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ یسوع اور اُس کے رسولوں نے کیا کہا تھا ۔ اُن باتوں کو یاد رکھو جو ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے رسول پہلے کہہ چکے ہیں ۔کلیسیا کے اندر یا اُس سے باہر کوئی بھی خطرہ ہو تو اُس کا جواب ہمیشہ ہی خُدا کا کلام ہے۔ 

      1. رسولوں نے خبردار کیا تھا کہ ایسی چیزیں ضرور ہونگی اور جیسے جیسے اخیر زمانہ آتا جائے گا یہ زیادہ ہونا شروع ہو جائیں گی۔ “کیونکہ ایسا وقت آئے گا کہ لوگ صحیح تعلیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کھجلی کے باعث اپنی اپنی خواہشوں کے موافق بہت سے اُستاد بنا لیں گے اور اپنے کانوں کو حق کی طرف سے پھیر کر کہانیوں پر متوجہ ہونگے۔” (2تیمتھیس 4 باب 3-4آیات)

    5. اخیر زمانہ میں ایسے ٹھٹھا کرنے والے ہونگے :  غالباً یہوداہ کے ذہن میں وہ لوگ تھے جو خُداوند یسوع مسیح کی آمدِ ثانی کے خیال کو ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔ یا پھر اِس سے اُسکی مراد وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو خود تو ہلاکت کی راہ پر چل رہے ہیں لیکن جو اُس راہ پر اُن کا ساتھ نہیں دیتے اُنہیں ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں۔ 

      1. ٹھٹھا کرنے والے ہوں گے جو اپنی بے دینی کی خواہشوں کے موافق چلیں گے : وہ جو اپنی بے دینی کی خواہشوں کے موافق چلتے ہیں ہمیشہ اُن لوگوں کو ٹھٹھوں میں اُڑانا پسند کرتے ہیں جو خُدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ یہوداہ چاہتا ہے کہ مسیحی اِس قسم کی ٹھٹھہ بازی کی توقع رکھیں تاکہ اگر اُن کے ساتھ کبھی ایسا ہو تو وہ اُسکی وجہ سے حیران یا پریشان نہ ہوں۔

  4. (19 آیت) ایسے لوگوں کی رُوحانی کیفیت:  

    یہ وہ آدمی ہیں جو تفرقے ڈالتے ہیں اور نفسانی ہیں اور رُوح سے بے بہرہ ہیں ۔

    1. یہ نفسانی ہیں :  بنیادی طور پر یہ لوگ بالکل رُوحانی نہیں  ہوتے، وہ بالکل دنیاوی اور نفسانی ہوتے ہیں اور رُوح القدس کے حوالے سے بالکل بے حس ہوتے ہیں۔ 

      1. یہاں پر لفظ نفسانی کا تعلق کسی طرح کی جنسی کشش یا بے راہروی سے نہیں ہے۔ اِس سے مراد وہ شخص ہے جو صرف اُن چیزوں کے لئے جیتا ہے جنہیں وہ حواس سے محسوس کر سکتا ہے، اور اُس کا رویہ ہمیشہ خود غرضانہ ہوتا ہے۔ اُس کا اصولِ عمل یہ ہوتا ہے کہ “اگر کوئی کام اچھا محسوس ہوتا ہے تو پھر اُسے کرنا چاہیے” یا پھر “اگر کچھ اچھا محسوس ہوتا ہے تو پھر وہ بُرا کیونکر ہو سکتا ہے؟”

    2. جو تفرقے ڈالتے ہیں :  اِن مخصوص لوگوں کی فطرت میں یہ شامل تھا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ کر لیں اور باقی لوگوں میں بھی تفرقے ڈالیں۔ ” یہاں پر ایسے لوگوں کو بیان کرنے کے لئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ بائبل میں صرف ایک ہی دفعہ استعمال ہوا ہے، اور یہ اُن اعلیٰ سطح پر موجود لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنے آپ میں ہی رہتے ہیں  –  یعنی مسیحی فریسی” (گرین/ Green)

    3. رُوح سے بے بہرہ ہیں :  یہ وضاحتی بیان بہت ساری کلیسیاؤں، یا کلیسیائی منصوبوں، یا بشارتی مہمات، یا گھریلو بائبلی مطالعات یا پھر انفرادی مسیحی زندگیوں کے بارے میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔ آج کی کلیسیا اور دُنیا کو حقیقی طور پر خالص رُوحانی مردوں اور عورتوں کی ضرورت ہے۔ 

و: ایسے لوگوں کی طرف سے لاحق خطرات کے متعلق کیا کیِا جائے۔

نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہوداہ یہاں پر ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ ہم اُن لوگوں پر  حملہ کریں جو ہمارے لئے خطر ناک ہیں۔ اِس کی بجائے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم خُدا کیساتھ اپنی رفاقت پر نظر رکھیں ، اور اِس قسم کے لوگوں سے نقصان اُٹھانے والے دیگر بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی نظریں ہمیشہ خُدا پر لگائے رکھیں۔ ہمیں ایسے لوگوں پر اُس سےزیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں جس قدر ہمیں اُن کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔ خُدا خود اُن سے نپٹ لے گا۔

  1. (20-21 آیات) اندرونی ذات پر ایک نظر

    مگر تم اَے پیارو! اپنے پاک ترین ایمان میں اپنی ترقی کر کے اور رُوح القدس میں دُعا کر کے اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھواور ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی رحمت کے منتظر رہو۔ 

    1. اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھو : ہم جانتے ہیں کہ خُدا ناراست سے بھی محبت رکھتا ہے (رومیوں 5باب6آیت)اِس لئے یہاں پر یہوداہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ “آپ  اِس انداز سے جینا شروع کریں کہ خُدا کو آپ پر پیار آجائے۔” اِس کی بجائے اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھنے سے یہوداہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خُدا کی ہمیشہ موجود محبت کیساتھ ہم آہنگ رکھیں۔  

      1. لیکن جب بائبل یہ کہتی ہے کہ خُدا ناراست سے بھی پیار کرتا ہے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس سے خُدا کے کلام کا مطلب کیا ہے۔ اس تصور کو جس کے مطابق خُدا ہم سب سے پیار کرتا ہے بہت دفعہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اُس گُنہگار کے بارے میں سوچیں جو اپنی گناہ آلود زندگی اور چال چلن کا دفاع یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ “مَیں جس انداز سے بھی زندگی گزارتا رہوں خُدا مجھ سے پیار کرتا ہے۔”اُس کے اطلاق کا مطلب یہ ہے کہ “خُدا مجھ سے پیار کرتا ہے کیونکہ مجھ میں کچھ خاص اور اچھی بات ہے۔” دراصل گنہگار کے لئے خُدا کی محبت در اصل خُدا کی بھلائی سے منسلک ہے نہ کہ اُس گنہگار کے اندر موجود کسی بھلائی سے۔ یہاں پریہ  نقطہ نظریہ نہیں کہ ” مجھ میں کچھ ایسا خاص ہے یا مَیں اِس قدر عظیم ہوں کہ حتیٰ کہ خُدا بھی مجھے پیار کرتا ہے۔” بلکہ “خُدا اس قدر عظیم ہے کہ وہ مجھ جیسے گنہگار سے بھی پیار کرتا ہے۔”

      2. خُدا کی محبت ہماری زندگی کے ہر حصے تک پھیلی ہوئی ہے اور کوئی بھی چیز ہمیں خُدا کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتی۔ لیکن ہم خُود خُدا کی محبت سے مستفید ہونے سے انکار کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو خُدا کی محبت میں قائم نہیں رہتے اُن کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے وہ چاند کے تاریک حصے میں اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ سورج ہر وقت چاند کے سامنے موجود ہے اور ہر وقت ہی چمک رہا ہے لیکن وہ لوگ کبھی بھی اُس مقام پر نہیں ہوتے جہاں پر وہ سورج کی روشنی یا گرمائش کو حاصل کر سکیں۔ اِس کی ایک خوبصورت مثال مُسرف بیٹا ہے جس کی کہانی لوقا 15 باب میں بیان کی گئی ہے، جسے اُس کا باپ ہمیشہ ہی پیار کرتا تھا لیکن ایک خاص مدت تک اُس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے پیار سے مستفید نہ ہونے دیا۔ 

    2. اپنے پاک ترین ایمان میں ترقی کر کے :  یہ ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھ سکتے ہیں۔ اِس کا مطلب رُوحانی طور پر ترقی کرتے جانا اور اور ہمیشہ بڑھتے رہنا ہے۔ یہوداہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اپنے پاک ترین ایمان میں ترقی کریں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری رُوحانی ترقی کی ذمہ داری ہم پر ہےیعنی ہم بیٹھ کر یہ انتظار نہیں کر سکتے کہ ہماری  رُوحانی ترقی خود بخود ہو جائے اور یہ بھی توقع نہیں کر سکتے کہ کوئی اور ہماری رُوحانی ترقی کر دے۔ 

      1. یہوداہ ہمیں انسانی کمزوری دکھا چکا ہے اور ہم پر یہ بھی ظاہر کر چکا ہے کہ کلیسیا کے اندر دھوکا باز کس طرح گھس آتے ہیں۔ اگر آپ اپنی رُوحانی ترقی کی ذمہ داری دوسروں کے سپرد کرتے ہیں تو پھر نہ صرف آپ کا رُوحانی طور پر نقصان ہو سکتا ہے بلکہ آپ گمراہی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ 

      2. دوسرے ہمارے لئے ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں جس میں ہماری رُوحانی ترقی ہو سکے۔ لیکن کوئی بھی دوسرا شخص خُداوند کے ساتھ ہمارے تعلق میں ترقی نہیں لا سکتا۔ 

      3. اپنے پاک ترین ایمان :  پاک ترین ایمان وہی ایمان ہےجو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا۔ (یہوداہ 3 آیت)۔ یہاں پر یہوداہ ایمان کو بڑھانے کی بات نہیں کر رہا( اگرچہ یہ ایک بالکل مناسب خیال ہے)  وہ پاک ترین ایمان میں ترقی کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ہم سچائی کی بنیاد پر ترقی کرتے ہیں۔ 

    3. رُوح القدس میں دُعا کر کے : اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے۔ بُری زندگی اور بُری تعلیمات کے خلاف جنگ در اصل رُوحانی جنگ ہے، اور اِس جنگ میں فتح پانے کے لئے ہمیں رُوح القدس میں دُعا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ 

      1. ہماری بہت ساری دُعاؤں کے پیچھے اہم ترین محرک ہماری اپنی ضروریات، ہماری اپنی سوجھ بوجھ یا ہماری اپنی خواہشات اور امیدیں ہوتی ہیں۔ لیکن دُعا کا درجہ اِس سب سے کہیں اونچا اور بڑا ہے: “اِسی طرح رُوح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے۔ کیونکہ جس طور سے ہم کو دُعا کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے، مگر رُوح خود ایسی آہیں بھر بھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے جن کا بیان نہیں ہو سکتا۔” (رومیوں 8باب28)

      2. رُوح القدس ہماری دُعاؤں کے دوران ہمیں وہ مناسب الفاظ عطا کر سکتا ہے جو ہمیں خُدا کی حضور ی میں کہنے چاہییں۔ وہ آہوں کے ذریعے سے بھی بات کر سکتا ہے جن کو الفاظ کی صورت میں ادا نہیں کیا جا سکتا (رومیوں 8باب 26آیت) یا رُوح القدس کسی اور نعمت کی مدد سے ہماری مدد کر سکتا ہے ، کسی ایسی نعمت کے ذریعے جس کی مدد سے خُدا ہمارے دل اور ہم خُدا کے دل تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور جس کے ذریعے خُدا ہم سے عام حالات سے ہٹ کر گہرائی میں کلام کرتا ہے۔ 

      3. ہمارے اندر اِس قسم کی کاہلی اور ہمارےبدن میں ہونے کے سبب سےہم میں ایسی سرد مہری پائی جاتی ہے کہ جب تک رُوح القدس تحریک نہ بخشے کوئی بھی درست طریقے سے دُعا نہیں کر سکتا۔ ۔۔کوئی بھی شخص اُس طرح سے دُعا نہیں کر سکتا جیسے اُسے کرنی چاہیے جب تک رُوح القدس اُسکی ہدایت نہ کرے۔ (کیلون/Calvin)

    4. ہمیشہ کی زندگی کے لئے ہمارے خُداوند یسوع مسیح کی رحمت کے منتظر رہو :  اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھنے کا یہ تیسرا طریقہ ہے۔ جب ہم اپنے خُداوند یسوع مسیح کی رحمت کے منتظر ہیں، یعنی  اُسکی جلد دوبارہ آنے کی امید کو اپنے دلوں میں زندہ رکھتے ہیں تو یہ چیز ہمیں اُسکی محبت میں بڑے موثر طریقے سے قائم رکھتی ہے اور ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم اپنے مسیحی ایمان میں قائم رہیں  اور اُس سے پھر نہ جائیں۔ 

  2.  (22-23 آیات ) باہر اپنے اردگرد کے لوگوں پر ایک نظر

    اور بعض لوگوں پر جو شک میں ہیں رحم کرو۔ اور بعض کو جھپٹ کر آگ میں سے نکالو، اور بعض پر خوف کھا کر رحم کرو، بلکہ اُس پوشاک سے بھی نفرت کرو جو جسم کے سبب سے داغی ہو گئی ہو۔

    1. بعض پر رحم کرو :  یہوداہ ہمیں یہاں پر سب سے پہلے وہ چیز بتاتا ہے جو ہمیں اُن لوگوں کیساتھ کرنے کی ضرورت ہے جو ایسے بُرے لوگوں کے  اثر میں ہیں۔ ہمیں یقینی طور پر اِس بات میں فرق کرنے کی ضرورت ہے کہ کونسا شخص کہاں سے یا کس قسم کی صحبت سے آرہا ہے۔ اور یقینی طور پر اُن میں سے بعض پر ہمیں رحم کرنے کی ضرورت ہے۔ 

      1. عقل و حکمت کو استعمال کرتے ہوئے ہم مختلف لوگوں  تک مختلف طرح سے پہنچتے ہیں اور مختلف برتاؤ کرتے ہیں۔ اگر ہم رُوح القدس کی آواز سننے کے لئے حساس ہیں تو پھر ہم اُسکی رہنمائی سے ہی یہ جان سکتے ہیں کہ ہمیں کب کسی کو تسلی دینی ہے اور کب کسی کو ملامت کرنی ہے۔ مسیحیوں کو اپنے کسی ایسے دوست کو چھوڑ نہیں دینا چاہیے جو کسی حد تک بدعات میں دلچسپی لے رہا ہو، بلکہ اُنہیں ایسے شخص کی اُس سارے ماحول اور حالات میں سے نکلنے میں مدد کرنی چاہیے۔ 

      2. ہمیں لوگوں سے محبت کرنا جاری رکھنا چاہیے۔ چاہے کوئی شخص کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہویا کسی کے عقائد کتنے ہی بُرے اور گمراہ کن کیوں نہ ہوں، ہمیں اُن لوگوں سے نفرت کرنے یا اُنکی نجات کی ضرورت کے بارے میں بے پرواہی برتنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

      3. رحم کرنے کا مطلب کسی کی دیکھ بھال کرنا اور جوابدہی کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی کی مدد کرنا ہے۔ “اس کے ساتھ ساتھ، دوسروں کی اور اپنی دیکھ بھال کرو، اور اُن کی ضروریات کے مطابق اُنہیں مدد فراہم کرو۔” (ویسلی/ Wesley)

    2. بعض پر خوف کھا کر رحم کرو :  اِس دوسرے گروہ کا سامنا  پہلے والے کی نسبت سختی کیساتھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمیشہ خوف کھا کرنہ کہ ریا کارانہ احساسِ برتری کیساتھ۔ آپ کو لپک کر اُنہیں آگ میں سے نکالنے کی ضرورت ہے لیکن کبھی بھی غرور و تکبر کیساتھ نہیں۔  

      1. باہرکے لوگوں کو دیکھنا اور اپنی ذات کےبیرونی  پہلو کا یوں مظاہر ہ کرنا ہم سب کے لئے بہت اہم ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم صرف اپنی رُوحانی بہتری کے لئے ہی تگ و دو نہیں کر رہے۔ بلکہ اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اُن مسیحیوں کی بھی سچے دل سے پرواہ کرتے ہیں جو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے گمراہی کی طرف گامزن ہیں۔ 

  3. (24-25 آیات) اوپر پُر جلال خُدا پر ایک نظر

    اب جو تم کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا ہےاور اپنے پُر جلال حضور میں کمال خوشی کے ساتھ بے عیب کر کے کھڑا کر سکتا ہے۔ اُس خُدایِ واحد کا جو ہمارا منّجی ہے جلال اور عظمت اور سلطنت اور اختیار ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے جیسا اَزل سے ہے اب بھی ہو اور ابد الآباد رہے۔ آمین

    1. اب۔۔۔اُس خُدایِ واحد کا: یہوداہ اپنے خط کو  مشہور مناجات کےساتھ ختم کرتا ہے ۔ اُسکی مناجات ہمیں اپنے لئے خُدا کی محبت، حفاظت اور پرواہ کا احساس دلاتے ہوئے  ہماری حتمی منزل کے بارے میں بھی آگاہ کرتی ہیں۔  

    2. جو تم کو ٹھوکر کھانے سے بچا سکتا ہے۔۔۔اور بے عیب کر کے کھڑا کر سکتا ہے :  ممکن ہے کہ یہوداہ کے خُدا کے عذاب کے بارے میں خبردار کرنے والے اِس پیغام نے اپنے پڑھنے والوں کو مایوسی کا شکار کیا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اُسکے  خط کو پہلے پڑھنے والے لوگوں نے یہ سوچا ہو کہ چاروں طرف اِس قدر جھوٹی تعلیمات اور بدکاری کی وجہ سے شاید چند مسیحی ہی آسمان کی بادشاہی میں داخل ہو پائیں گے۔ یہاں پر وہ اُن سب کو یہ بات یاد دلانا چاہتا ہے کہ اِس سوال کا جواب خُدا کی اپنی قدرت کے اندر پایا جاتا ہے۔ وہ آپ کو بچانے کے قابل ہے، آپ خود اپنے آپ کو بچانے کے قابل نہیں ہیں۔ 

      1. جب لوگ کوہ پیمائی کرتے ہیں تو نئے آنے والے لوگ پرانے ماہرین کیساتھ رہتے ہیں تاکہ اگر کبھی اُن کے گرنے کا خطرہ ہو تو اُن سے زیادہ قابل اور پرانے ماہر کوہ پیما اُنہیں گر کر مرنے سے بچا سکیں۔ اِسی طرح سے اگر ہم خُدا کیساتھ اپنے تعلق کو بحال رکھیں گے تو پھر ہم گر نہیں سکتے کیونکہ وہ ہماری حفاظت کرتا ہے۔ 

      2. اگر ہم اِس بات کا کلام ِ مقُدس کے دیگر حصوں کیساتھ موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہماری حفاظت کا ذمہ دار کون ہے۔ یہوداہ اپنے خط کا آغاز اُن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کرتا ہے جو مسیح یسوع کے لئے محفوظ ہیں۔ (یہوداہ 1 آیت) پھر وہ مسیحیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ خطرناک لوگوں سے دور رہیں اور اپنے آپ کو خُدا کی محبت میں قائم رکھیں (یہوداہ 21 آیت)۔ یہاں  اپنے خط کے اختتام پروہ اِس بات کے اقرار اور اعلان کیساتھ بات کو ختم کرتا ہے کہ خُدا ہی ہمیں لڑکھڑانے اور گرنے سے حتمی طور پر محفوظ رکھتا ہے۔ فلپیوں 2باب 12-13 آیات میں پولس اِسی خیال کو پیش کرتا ہے: “پس اَے میرے عزیزو! جس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اب بھی نہ صرف میری حاضری میں بلکہ اِس سے بہت زیادہ میری غیر حاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔ کیونکہ جو تم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے۔”

      3. ہمیں رُوحانی طور پر محفوظ رکھنا خُدا کا کام ہے۔ لیکن آپ ہمیشہ اُن لوگوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن کی زندگیوں میں خُدا کام کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ خود بھی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ خُدا ہمیں اِس لئے نہیں بلاتا کہ ہماری زندگی خود بخود مسیحی اقدار کے مطابق ڈھل جائے گی، اور وہ ہمیں یہ بھی حکم نہیں دیتا کہ ہم خود اپنے آپ کو بچانے کی تگ و دو میں رہیں۔ وہ ہمیں بلاتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ ملکر اُسکی پاک مرضی کے مطابق کام کریں۔ 

    3. اپنے پُر جلال حضور میں کمال خوشی کیساتھ :  کیونکہ خُدا وفا دار ہے اِس لئے ہم اُسکی حضوری میں شرمساری اور ندامت کیساتھ نہیں جائیں گےبلکہ ہم کمال خوشی کے ساتھ اُسکے پُرجلال حضور میں بے عیب کھڑے کئے جائیں گے۔ 

    4. خُدایِ واحد جو ہمارا منّجی ہےجلال اور عظمت اور سلطنت اور اختیار۔۔۔اب اور ابدالآباد رہے :   یہ ساری باتیں ہمیں خُدا کے جلال، عظمت ، سلطنت اور اختیار کی یاد دہانی کرواتی ہیں۔ یہوداہ یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ ہم یہ اوصاف خُدا کو دے سکتے ہیں یا ہمیں ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔بلکہ جب ہم خُدا کی ذات کے بارے میں سچائیوں کو تسلیم کر کے اُن کا بیان کرتے ہیں تو اِس سے خُدا کے نام کو جلال ملتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اُس کے اُس جلال اور قدرت میں قطعی طور پر کچھ اضافہ نہیں کر رہے ہوتے جو اُس کے پاس ہمیشہ سے ہے، بلکہ ہم صرف اُسکے اُس جلال، عظمت اور اختیار کو جان کر اُس کا پرچار اور اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔ 

      1. اب بھی ہو اور ابد الآباد رہے: اِس کا  ترجمہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ “ہر دور میں اور ہر نسل کے لئے”۔ یہ ابدیت کے بارے میں ایسا مکمل بیان ہےیعنی جس قدر انسانی زبان میں  بیان کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ” (روبرٹسن/Robertson)۔خُدا کی ذات میں ہماری فتح ہمیشہ ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ 

      2. اِس دُنیا کے اندر اور اکثر بلائے ہوئے مسیحیوں کے درمیان بھی ایک سنجیدہ قسم کی بہت بڑی دھوکہ دہی یا گمراہی موجود ہے۔ انجیل کے کئی ایک دشمن چپکے سے کلیسیا میں آملے ہیں۔ لیکن اِس خطرے کے حجم کے برعکس ہمارا خُدا عظیم تر ہے۔ فتح ہمیشہ اُسی کی ہوگی، اور اگر ہم اُس میں قائم رہیں تو ہمیں بھی فتح کی ضمانت ملتی ہے۔ 

      3. یہوداہ کے اِس چھوٹے سے خط میں بہت زیادہ دفعہ کئی چیزوں کے بارے میں ہمیں خبردار کیا گیا ہے اور یہ کتاب بہت ہی انتباہی نوعیت کی ہے، لیکن اِس کا اختتام خُدا کی ذات میں مکمل اعتماد کیساتھ ہوتا ہے۔ جتنے بھی خطرناک موڑ اور لمحے ہماری زندگی میں آتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اُن کی بدولت خُدا پر اور زیادہ بھروسہ کرنا سیکھیں۔ 

© Copyright 2018 - Enduring Word       |      Site Hosted & Maintained by Local View Marketing    |    Privacy Policy